Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شیخ رشید: ’مرشد پاک‘ یا ’پنڈی بوائے‘؟

ہونٹوں پر مسکراہٹ، آنکھوں میں شرارتی چمک اور ہاتھوں میں سگار لیے راولپنڈی کے شیخ صاحب گذشتہ کئی دہائیوں سے قومی منظر نامے پر مرکزی حیثیت حاصل کیے ہوئے ہیں۔
حالیہ کچھ ہفتوں میں ان کے رخساروں کی  رنگت اور بھی سرخ و سفید ہو گئی ہے۔ وہ جب بولتے ہیں تو دنیا سر دھنتی ہے۔ تجزیہ کار ان کے خطاب سے اپنے تجزیوں کے لیے رہنمائی حاصل کرتے ہیں، صحافی ان کے جملوں کے اندر چھپی خبروں کو تلاش کرتے ہیں، عوام ان کی طنز میں نمایاں تھڑوں اور بیٹھکوں کے لہجے پر واری جاتے ہیں اور مخالفین ان کے برسائے گئے نشتروں سے ہفتوں تلملاتے رہتے ہیں۔  
راولپنڈی کے شیخ رشید احمد پاکستانی سیاستدانوں میں شاید واحد سیاستدان ہیں جو فخریہ خود کو ’پنڈی بوائے‘ کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اعلانیہ ’اسٹیبلیشمنٹ کا آدمی‘ ہونے کا اعتراف کرتے ہیں۔ 
وہ 1985 میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے کے بعد سے مسلسل مرکز نگاہ ہیں۔ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں سیاسی ہیڈ لائنز انہی کے بیانات سے بنتی ہیں اور گلی محلے کے بحث مباحثوں میں استعمال ہونے والی جملے بازیاں بھی انہی کی اصطلاحات سے تشکیل پاتی ہیں۔ 
6 نومبر 1950 کو پیدا ہونے والے شیخ رشید احمد نے اپنی 69 سالہ زندگی میں پاکستان کے تقریبا تمام سیاسی ادوار دیکھے ہیں۔ وہ اب تک آٹھ مرتبہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے ہیں اور کئی مرتبہ وفاقی وزیر رہے ہیں لیکن سیاسی آسمان پر عروج انہوں نے بہت پہلے دیکھ لیا تھا جب زمانہ طالب علمی میں ہی وہ ایوب خان کے خلاف چلنے والی تحریک کا ایک ستارہ بن گئے تھے اور بعد ازاں ایئر مارشل ریٹائرڈ اصغر خان کی جماعت کے ایک شعلہ بیان مقرر۔
قانون اور سیاسیات کی ڈگریاں رکھنے والے شیخ رشید کی سیاسی تربیت دو صحافیوں ہفت روزہ چٹان کے ایڈیٹر مرحوم آغا شورش کاشمیری اور روزنامہ جنگ راولپنڈی کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر مرحوم شورش ملک نے کی ہے جن کے پاس ہر روز شام کو حاضری دینا وہ اپنا فریضہ سمجھتے تھے۔ 

شیخ رشید اپنی پیش گوئیوں کی وجہ سے مشہور ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

شیخ رشید بتاتے ہیں کہ شورش کاشمیری نے ان کو جلسوں اور شورش ملک نے اپنے اخبار میں جگہ دے کر ان کی بھر پور سرپرستی کی۔  
یہ بات درست ہے کہ شیخ رشید کو شیخ رشید بننے میں مسلم لیگ نواز کے ووٹ بنک نے مدد کی اور جب 2002 میں وہ نواز شریف کو چھوڑ کر سابق فوجی صدر پرویز مشرف کی تخلیق کردہ جماعت مسلم لیگ قائداعظم میں چلے گئے تو 2008  میں آنے والے اگلے انتخابات میں بری طرح ہار گیے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی وجہ شہرت اسمبلی اور اسمبلی سے باہر جملے بازیاں ہیں۔
پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم اور پیپلز پارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو کے خلاف انہوں نے کئی بار نامناسب گفتگو کی۔ جب وہ دوسری مرتبہ وزیراعظم بنیں تو شیخ رشید کو کلاشنکوف برآمد ہونے کے مقدمے میں جیل کی ہوا بھی کھانا پڑی۔    
لیکن  برسوں بعد جب بے نظیر بھٹو کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری سیاست میں آئے تو انہوں نے ان پر بھی پھبتیاں کسنا شروع کر دیں اور ان کو قابل اعتراض القابات سے پکارا۔
مگر شیخ رشید کہتے ہیں کہ انہیں اپنی کسی بات پر افسوس نہیں ہے بلکہ انہوں نے کبھی غیر پارلیمانی گفتگو نہیں کی، ان کی شہرت ویسے ہی خراب کر دی گئی۔ ان کے بقول انہوں نے بلاول سے متعلق بھی ایسی غلط باتیں نہیں کیں جو ان سے منسوب کر کے لوگوں نے سوشل میڈیا پر ڈال دیں۔ ’ویسے بلاول سے دل لگی ضرور ہے۔‘

شیخ رشید کے بھٹو خاندان کے ساتھ کبھی بھی اچھے تعلقات نہیں رہے (فوٹو: اے ایف پی)

سیاسی پیش گو یا ’مرشد پاک‘
شیخ رشید کی ایک وجہ شہرت ان کی سیاسی پیش گوئیاں بھی ہیں جو بعض اوقات درست معلوم ہوتی ہیں۔ اگرچہ گذشتہ دور میں ان کی نواز شریف حکومت جانے کی متعدد پیش گوئیاں غلط بھی ثابت ہوئیں لیکن انہوں نے اس سے یہ کہہ کر جان چھڑا لی کہ حکومت کو رخصت کرنے والوں نے اپنا ارداہ ملتوی کر دیا تھا۔
سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ شیخ رشید کی سیاسی پیش گوئیاں اور درست تجزیے ان کی مقتدر حلقوں سے قربت کا نتیجہ ہے جو ہمیشہ انہیں اپنی ٹیم کے اوپنر کے طور پر کھلاتے ہیں اور جب بھی سیاسی میدان میں ہلچل مچانا ہو، شیخ صاحب اپنی پیش گوئیوں کے چوکے چھکے لگانا شروع کر دیتے ہیں۔
 لیکن شیخ رشید خود اس صلاحیت کو قدرت کی طرف سے الہام قرار دیتے ہیں۔
اردو نیوز کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے اس بارے میں کہا کہ ’میں یہ نہیں کہتا میں ولی ہوں، یا گنہگار آدمی ہوں، اور بعض اوقات میرا وجدان یا سوچ یہ کہتی ہے کہ ایسا ہونے لگا ہے، جب زلزلہ آیا پاکستان میں تو مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ کپکاہٹ ہے تو جب میں نے یہ کہا کہ زلزلہ آسکتا ہےتو اب دیکھیں آدھا حلقہ میرا ’پنڈی بوائے‘ مجھے کہتا ہے آدھا حلقہ مجھے ’مرشد پاک‘ کہتا ہے۔ ایک مری روڈ کی تقسیم ہے اس طرف میں ’پنڈی بوائے‘ کہلاتا ہوں اور اس طرف ’مرشد پاک‘ کہلاتا ہوں۔ کہ بعض اوقات میرے اندر سے ایسی سوچ پیدا ہوتی ہے۔‘

شیخ رشید نے پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد کر رکھا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

سیاسی زندگی کے تین اہم دن                                                                           
 شیخ رشید کہتے ہیں کہ ان کی 52 سالہ سیاسی زندگی میں تین دن اہم ہیں۔ ایک چھ نومبر 1968 کا دن جب انہوں نے پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ سے ایوب خان کے خلاف تحریک کا آغاز کیا تھا، ایک وہ دن جب انہوں نے ذوالفقارعلی بھٹو کے دور حکمرانی میں لیاقت باغ میں ان کا جلسہ تلپٹ کر دیا اور پھر اٹھائیس اکتوبر 2016 کا دن جب نواز شریف حکومت کے خلاف احتجاج کے موقع پر وہ تمام رکاوٹوں اور ناکوں کو چکمہ دیتے ہوئے کمیٹی چوک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ 
’جب میں نےبھٹو کا جلسہ پلٹا اعلان تاشقند کے مسئلے پر، تنہا، ایک چاقو تھا میری جیب میں یا ہاتھ میں اب یہ میں نہیں کہہ سکتا، اور وہ وزیراعظم  بھی تھا اور صدر بھی تھا، اور میں نے تن تنہا اس کا سارا جلسہ مین گیٹ سے داخل ہو کر پلٹ دیا۔ ہم آٹھ، دس لڑکے تھے،  ہم مین لیاقت باغ کی طرف سے داخل ہوئے تو لوگوں میں ہلچل پیدا ہو گئی اورانہوں نے غلطی یہ کی کہ سٹیج سے گولی چلا دی۔ اور میرا کوٹ تھا، میں کوٹ اتار کے ننگا ہو گیا بالکل یعنی کوٹ اور شرٹ، میں بھٹو کے سامنے کھڑا ہو گیا، کہ مارو گولی تم، تو اس سے اس کا سارا جلسہ  تہس نہس ہو گیا۔‘ 
شیخ رشید کی گورڈن کالج راولپنڈی کی طلبہ سیاست میں مقبولیت اور قومی سیاست میں مرکزی حیثیت اور سیاست کے مد و جزر پر ان کی گہری نظر ایک طرف لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان کے سیاسی سفر کی ابتدائی کامیابیوں میں ان کے ساتھیوں کا خون شامل ہے۔

شیخ صاحب بلاول بھٹو کو بھی عموماً تنقید کا نشانہ بناتے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

وہ اپنے ماضی کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب انہوں نے پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ سے سیاسی تحریک کا آغاز کیا تو پہلے دن ہی ان کے ساتھی حمید کا خون ہو گیا۔ جس کی لاش لے کر وہ باہر نکل گئے اور بھر پور احتجاج کیا۔ 
’اگلے دن دو لڑکے میرے محلے میں بھی شہید ہو گئے۔‘
ان واقعات نے ان کی سیاسی جدو جہد کو مہمیز دی اور پھر ان کا سفر نہ رک سکا۔
لیکن وہ یہ اعتراف بھی کرتے ہیں کہ مقتدر حلقوں سے ان کا گہرا تعلق ان کے کیرئیر کی ابتداٗ سے ہی شروع ہو گیا تھا۔
ڈی جی آئی ایس آئی سے الیکشن لڑوانے کی درخواست
’فوج سے تعلقات کالج کے دنوں سے شروع ہو گئے تھے، ہمایوں اختر خان کے والد اختر عبدالرحمان جو اس وقت ڈی جی آئی ایس آئی تھے، لال حویلی آیا کرتے تھے۔‘ 
شیخ رشید کے بقول ’میرے تعلقات ہمایوں اختر کے والد اختر عبدالرحمان سے (اس وقت سے) تھے۔ میرے کونسلر کے (انتخابات کے) لیے کاغذ مسترد ہو گئے تھے، میں اس کے گھر گیا سائیکل پر، بیل ماری، اندر سےاس کا اردلی نکلا، اس نے مجھے غریب مسکین سمجھ کر اندر بلایا، اس نے کہا تم کون ہو، میں نے کہا میرا کوئی تعارف نہیں ہے۔ میں نے یہ الیکشن لڑنا ہے اور اس نے کہا کیسے لڑ سکتے ہو، کل الیکشن ہے پرسوں، میں نے کہا آپ لڑوا سکتے ہیں۔‘

شیخ رشید پر الزام ہے کہ انہوں نے لال حویلی پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے (فوٹو: فیس بک)

ان کا ماننا ہے کہ فوج سے اچھے تعلقات ضروری ہیں کیونکہ ’وہ بااثر لوگ ہیں۔‘ 
شیخ رشید یہ بھی اعتراف کرتے ہیں کہ ان کے پائے کے سیاستدانوں کی مجبوری ہوتی ہے کہ کوئی بڑی شخصیت ان کو آگے رکھ کر استعمال کرتی رہے۔
’ہم لوگوں کی سیاسی زندگی بھی اسی میں ہوتی ہے کہ ہمیں کوئی رکھے۔ کیونکہ ہمارا رول کبھی لوکو موٹو کا نہیں ہوتا، ہم بطور سیکنڈ، تھرڈ چین کے چلتے ہیں۔‘ 
’پنڈی بوائے کی ناکامیاں‘
شیخ رشید کے سیاسی سفر کے پہلے دن کے ساتھی راولپنڈی کے حاجی نواز رضا جو بعد ازاں خود شعبہ صحافت سے منسلک ہو گئے اور اب روزنامہ نوائے وقت کے ایک سینیئر رکن ہیں، کہتے ہیں کہ شیخ رشید کو اگر کسی عنصر نے بہت بڑا سیاسی رہنما بننے سے روکا ہے تو وہ ان کی کم علمی ہے، ورنہ ایک زمانے میں ان کی تقاریر زمانہ سنتا تھا۔
’جوانی میں شیخ رشید پر کشش تھے، جوش خطابت بھی بہت تھا، سیلف میڈ انسان تھے، لوگ انہیں پسند کرتے تھے، انہیں سننے کے لیے بڑی تعداد میں آتے تھے۔ ان میں سیاسی قابلیت بھی تھی۔ لیکن انہیں جس چیز نے روکا وہ ان کی کم علمی تھی۔ علم سے لابلد تھے۔ تقریروں میں رٹی رٹائی باتیں کرتے تھے۔‘
شیخ رشید یہ نہیں مانتے کہ وہ کبھی ناکام ہوئے ہیں۔ ان کے مطابق وہ ہمیشہ بڑے سیاسی رہنماووں کے ’نمبر ٹو‘ رہے ہیں۔
 تاہم نواز رضا کے مطابق اپنے سیاسی کیریئر کے عروج پر کی گئی غلطیوں کی وجہ سے شیخ صاحب نے بہت نقصان اٹھایا۔

شیخ رشید کئی سال تک مسلم لیگ ن کا حصہ رہے (فوٹو: نیوز ٹرائب)

’ان کو ایک بڑا دھچکا اس وقت لگا جب وہ پہلی مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور فرط جذبات میں کہہ گیے کہ اب پنجاب کی وزارت اعلٰی ان کے جوتے کی نوک پر ہے کیونکہ اگلے ہی روز وہ صوبائی اسمبلی کا انتخاب بھی لڑ رہے تھے۔ لیکن اللہ تعالٰی کو ان کا تکبر پسند نہیں آیا اور وہ صوبائی اسمبلی کی نشست ہار گئے۔‘ 
شیخ رشید سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے سیاسی کیر ئیر میں دو مرتبہ راولپنڈی کے میئر بن سکتے تھے لیکن دونوں بار نواز شریف نے سازش کر کے  انہیں روک دیا کیوں کہ وہ باصلاحیت لوگوں کو آگے نہیں آنے دیتے اور ان سے خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ 
’وہ بانٹننے پر آتے ہیں تو اپنے گھر میں بانٹتے ہیں۔ وہ ڈانٹنے پر آتے ہیں تو ہم جیسے لوگوں کو ڈانٹتے ہیں۔ ایک دفعہ نہیں دو دفعہ انہوں نے مجھے میئر بننے سے روکا۔‘
نواز رضا کے خیال میں اکیسویں صدی کے اوائل میں مئیر بننے کی اپنی دوسری کوشش میں شیخ رشید اس لیے ناکام ہوئے کیونکہ اس وقت کے کور کمانڈر راولپنڈی طارق کیانی کو پسند کرتے تھے اور پھر اس عہدے پر انتخاب بھی طارق کیانی کا ہی ہوا۔ 
نواز شریف سے ذاتی مخالفت عروج پر پہنچنے کے بعد ایک وقت ایسا آیا جب مسلم لیگ نواز کی اعلٰی قیادت نے عمران خان کا مقابلہ کرنے کے لیے شیخ رشید کو پارٹی میں واپس لانے کا فیصلہ کیا اور 2013 کے انتخابات سے پہلے چوہدری نثار نے اس کے لیے بھر پور کوشش کی۔ لیکن یہ معاملہ طے نہ پا سکا۔
اس بارے میں شیخ رشید کا موقف ہے کہ وہ چوہدری نثار کی ’راستہ نکالنے‘ کی کوششوں کے باوجود مسلم لیگ نواز میں واپس نہیں گئے کیونکہ وہ عمران خان کو زبان دے چکے تھے اور وعدہ خلافی نہیں کر سکتے تھے۔

شیخ رشید اپنے حلقے کی مقبول شخصیت ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

لیکن مسلم لیگ نواز راولپنڈی کے مقامی رہنما شکیل اعوان جو شیخ رشید کے ساتھی بھی رہے اور ان کو انتخابات میں شکست بھی دے چکے ہیں کا کہنا ہے کہ ان کی واپسی کلثوم نواز اور مریم نواز کی مخالفت کے باعث ممکن نہیں ہو سکی کیونکہ انہوں نے نواز شریف کی گرفتاری کے بعد کلثوم نواز کے لال حویلی آنے پر ان سے بد سلوکی کی تھی، جس سے شیخ رشید انکار کرتے ہیں۔ 
نواز رضا کے مطابق مسلم لیگ نواز کی مقامی قیادت نے ان کی واپسی کو ناکام بنایا۔
ٹیلی ویژن چینل کی ماہانہ ایک کروڑ کی پیشکش
شیخ رشید کو ٹیلی ویژن ریٹنگ کا استعارہ سمجھا جاتا ہے۔ نیوز چینلز اپنے ناظرین کی تعداد بڑھانے کے لیے ہر وقت ان سے انٹرویوزاورشوز میں شرکت کے متمنی ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق ایک ٹیلی ویژن چینل نے انہیں تجزئیے کے بدلے ماہانہ ایک کروڑ سے زائد رقم دینے کی پیشکش کی جس کو انہوں نے عمران خان کی خاطر ٹھکرا دیا۔ 
 ’میرا اپنا ایک کراوڈ ہے، اس ٹی وی کے کراوڈ میں مجھے کسی نے ابھی تک شکست نہیں دی۔ جو ٹی وی دیکھنے والے ہیں وہ ابھی بھی میرا کہیں پروگرام لگا ہو تو وہ سوئچ آگے نہیں لے کر جاتے اورمجھے ایک کروڑ بیس لاکھ روپیہ مہینے کی آفر تھی چینل سے، روزے میں کہہ رہا ہوں ایک کروڑ بیس لاکھ روپیہ ہر مہینے، لیکن عمران خان کے لیے میں نہیں چاہتا تھا کہ ایک چینل کا میں ہو کے رہ جاوں۔‘
شیخ رشید  کے سگار
شیخ رشید کہتے ہیں کہ وہ سگار سے بے پناہ محبت کرتے ہیں اور ایک مہینے میں پچاس ہزار تک کے سگار پی جاتے ہیں۔ 

شیخ رشید اپنے عوامی سٹائل کی وجہ سے کئی بار رکن اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

’سگار کا تیس چالیس ہزار سے زیادہ، پچاس ہی کی ہزار (ماہانہ) خرچہ ہوتا ہے۔ جب وزیر ہوتا ہوں تو سگار تحفے میں آ جاتے ہیں۔ مشکل وقت اس وقت ہوتا ہے جب جیب سے خریدنے پڑتے ہیں۔‘ 
وہ سمجھتے ہیں کہ بطور وزیر  سگار کا تحفہ لینے میں کوئی حرج نہیں لیکن اس کے بدلے میں کسی کا ناجائز کام نہیں کرنا چاہیئے۔
’رشوت نہیں لینی چاہیئے، کوئی ایک آدمی سگار لے آیا ہے چھوٹا موٹا ڈبہ توخیر ہے کوئی بات نہیں۔ غلط کام نہیں کرنا چاہیئے، یہ نہ ہو کوئی آدمی سگار لے آئے ایک ڈبہ اور کہے زمین لیز پر دے دو، یہ کام نہیں ہونا چاہیئے۔‘ 
شیخ رشید حالات بدلنے کے ساتھ سگار کا برانڈ بھی بدل لیتے ہیں۔
’میں اس وقت تو پی رہا ہوں رومیو جیولیٹ۔ جیسے جیسے مہنگے ہوتے ہیں، شیخ ہوں نیچے آتا جاتا ہوں۔ کوحبا سے مونٹی کرسٹو پہ آیا، مونٹی کرسٹو سے چرچل پہ آیا، چرچل سے نمبر دو اور سٹرانگ ہے اس لیے میں پیتا ہوں رومیوجیولیٹ نمبر ٹو۔‘ 
شیخ رشید کا 'بی بی سی'
شیخ رشید خود جتنی دلچسپ شخصیت رکھتے ہیں ان کے گرد بہت سے کارکن بھی اسی طرح کی دلچسپ شخصیتوں کے مالک ہیں۔ اسی طرح کا ان کا ایک مرحوم کارکن بی بی سی تھا جس کا اصل نام وہ اب بھول چکے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ آخر دم تک لال حویلی سے منسلک رہا۔
وہ غریب آدمی صبح سے شہر سارے سے پھر کر خبریں لاتا تھا۔ پیدل اسمبلی آتا تھا۔ اور مر گیا۔ اور ان پڑھ تھا۔ صبح اخبار لے کے لوگوں کی دکان پر جاتا تھا کہ یہ خبر، تصویر دیکھ کر کہتا تھا کہ یہ خبر پڑھو، اور اسی طرح ٹوٹی جوتیوں کے ساتھ ۔
وہ بیمار ہوا اور لال حویلی کے ساتھ وابستہ مر گیا۔ اس کا نام بی بی سی تھا۔
تھا ان پڑھ لیکن وہ ریڈیو سیلون بھی سنتا تھا، اور شام کو بی بی سی خبریں ضرور سنتا تھا۔ اس لیے اس کا نام بی بی سی رکھا۔  اس کا اصل نام یاد نہیں لیکن بی بی سی سے ہی مشہور تھا۔ اس کے خلاف پرچہ ہوا تو بی بی سی ہی لکھا کیوں کہ کسی کے پاس اس کا اصل نام نہیں تھا۔‘ 
 
شیخ صاحب کی شادی

شیخ رشید نے آج تک شادی نہیں کی (فوٹو: اے ایف پی )

شیخ رشید کہتے ہیں کہ انہوں نے کبھی شادی نہیں کی۔ کچھ سال پہلے ایک خاتون شہناز بیگم نے ان کی مبینہ اہلیہ ہونے کا دعویٰ کیا تھا لیکن وہ اس کو نہیں مانتے۔ وہ کہتے ہیں ان کی صرف امریکہ کی حد تک ان سے ایک انڈر سٹینڈنگ تھی۔
’شہناز کا کیس بڑا سارا اچھلا، میں نے پاکستان میں کوئی ایسی غلطی نہیں کی اور کسی کی مدد کی گئی امریکہ میں، انہوں نے اچھالا بہت سارا۔ اب تو اچھا ہی نہیں ہے (بات کرنا) وہ مرے ہوئے بھی کئی سال، برسوں، صدیاں ہو گئی ہیں۔‘
ان کے بقول ’کوئی شادی نہیں تھی میری۔ لیکن یہ ہے کہ امریکن حد تک میری ایک انڈرسٹینڈنگ تھی۔ لیکن اب کیا کہیں ان کے بچے جوان ہیں ایسی باتیں، کوئی فائدہ نہیں ہے۔ میں نے کوئی شادی نہیں کی ان سے۔‘ 
لیکن نواز رضا کے مطابق ان کے پاس ان کے نکاح نامے کی نقل موجود ہے اور شیخ رشید نے خود انہیں اس شادی کے ختم ہو جانے کے بعد طلاق کا بتایا تھا۔
لال حویلی کا قصہ
شیخ رشید کے مخالفین کہتے ہیں کہ انہوں نے راولپنڈی کے بھابھڑا بازار میں واقع اپنی پرانی رہائش گاہ لال حویلی پر نا جائز قبضہ کیا ہوا ہے اور اس کا تنازعہ کئی سالوں سے عدالتوں میں زیر بحث رہا ہے، لیکن ان کے مطابق اس حویلی میں اب بھی انیس فریق رہتے ہیں۔
’(لال حویلی پر) قبضہ کرنا چاہیئے تھا، نہیں کیا۔ انیس لوگ رہتے ہیں ، انیس کے انیس کے پہلے ہی اب بھی رہتے ہیں، وہی تین کے تین مرلے ہمارے پاس ہیں۔ لیکن پیچھے ہم نے غریبوں کو گلیاں وغیرہ بنا کے ساری سہولت دی۔ لیکن اب میں لال حویلی کالج کو یا یونیورسٹی کو دینا چاہتا ہوں، تو پچھلے لوگوں کو آن پےمنٹ یا کسی طریقے سے خالی کرانا چاہتا ہوں۔‘
شیخ رشید کی جنوں والی خصوصیات 
جاوید قریشی گذشتہ بیس سال سے شیخ رشید کے ساتھ بطور فوٹو گرافر کام کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے ان کی زندگی میں کوئی شارٹ کٹ نہیں دیکھا۔
شیخ صاحب میں جنوں والی خصوصیات ہیں۔ یہ بہت زیادہ محنتی ہیں۔ یہ اپنی کامیابی کا راز صبح جلدی اٹھنا بتاتے ہیں۔ وہ سورج نکلنے سے پہلے بیدار ہو کر کام شروع کر دیتے ہیں، اور نو بجے سے پہلے دفتر پہنچ جاتے ہیں۔ ان کے دفتر جلدی آنے کی وجہ سے سٹاف پریشان ہوتا ہے کیونکہ پھر انہیں بھی جلدی پہنچنا پڑتا ہے۔‘ 
جاوید قریشی کے مطابق کچھ سال پہلے تک شیخ رشید کو بیڈمنٹن کھیلنے اور ورزش کرنے کا بہت شوق تھا لیکن ایک مرتبہ ان کا پاوں زخمی ہو گیا جس کے بعد اب کئی سالوں سے انہوں نے ورزش نہیں کی۔
بچوں سے محبت اور انعام اور عیدی کا ریٹ
اب وہ اپنے بھتیجے کے بچوں سے دل بہلاتے ہیں اور جب بھی اداس ہوتے ہیں ان کو بلا لیتے ہیں۔ انہیں بچے بہت پسند ہیں۔ ان کو کھلاتے پلاتے ہیں اور ان سے سکول کی اور پڑھائی کی باتیں کرتے ہیں۔‘ 
جاوید قریشی کا کہنا ہے کہ شیخ رشید کے ساتھ کام کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ وہ بہت زیادہ کام مانگتے ہیں۔ تاہم جب اچھا کام کرتے ہیں تو خؐش بھی ہوتے ہیں اور انعام بھی دیتے ہیں۔ 
’آج سے پانچ سال پہلے تک اچھی تصویر بنانے پر دو ہزار روپے انعام دیتے تھے۔ پھر 2015 میں انہوں نے انعام کا ریٹ بڑھا دیا اور اب انہیں تصویر پسند آئے تو پانچ ہزار روپے ملتے ہیں۔ اب عیدی بھی پانچ ہزار ہی ملتی ہے۔‘
لیکن شیخ رشید کے ساتھ پندرہ سال تک بطور سیاسی کارکن کام کرنے اور بعد میں ان کے خلاف الیکشن لڑنے والے شکیل اعوان کا کہنا ہے کہ وہ باصلاحیت کارکن کو ترقی کا موقع نہیں دیتے اور اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ 
’مخالفت ضرور ہے لیکن شیخ رشید کی اس بات کا اعتراف ہے کہ ان کے پاس دیوار کے دوسری طرف دیکھنے کی صلاحیت ہے۔ ان کو پتہ چل جاتا ہے کہ کون سا کارکن آگے چل کر ان کے لیے خطرہ بن سکتا ہے، اور یہ پھر اس کو آگے بڑھنے سے روکنے کی کوششیں شروع کر دیتے ہیں۔‘
’لیکن یہ قسمت کے دھنی بھی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی خوبیاں ہی ان کی خامیاں ہیں۔ ان میں لچک بہت زیادہ ہے۔ ابن الوقتی کا فن آتا ہے۔ لوگوں کو مرچ مصالحہ لگا کر قابو کر لیتے ہیں۔ منافق ہیں۔‘   
راجہ بازار کے ایک تاجر اور شیخ رشید کے حلقے کے ووٹر شیخ اسماعیل کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند سالوں میں ان کی طبیعت میں تبدیلی آئی ہے اور وہ اب لوگوں سے تلخ ہو جاتے ہیں۔
شیخ رشید ان تمام الزامات کی تردید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ آج بھی اسی طرح ملنسار ہیں۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ وہ جھوٹ پسند نہیں کرتے اور جھوٹ بولنے پر انہیں غصہ آتا ہے۔ یا پھر جب لوگ تھانہ کچہری کے مسائل لے کر آتے ہیں کیونکہ وہ تھانہ کچہری کی سیاست نہیں کرتے۔


'پی ٹی آئی کی حکومت ختم ہوتے ہی شیخ رشید کا دور ختم ہو جائے گا' (فوٹو: اے ایف پی)

بھرپور میلہ چھوڑنے کی خواہش اور موت کی پیش گوئی
شکیل اعوان سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت ختم ہوتے ہی شیخ رشید کا دور ختم ہو جائے گا کیونکہ اب ان کی حمایت میں کمی ہو رہی ہے۔
لیکن شیخ رشید بضد ہیں کہ وہ سیاست کو بھرے میلے میں چھوڑنا چاہتے ہیں اور پاکستان ریلوے کا ایم ایل ون منصوبہ اور راولپنڈی میں نالہ لئی ایکسپریس وے مکمل کروا کر ریٹائرمنٹ کے خواہشمند ہیں، مگر کسی نے چیلنج کیا تو وہ کبھی ریٹائر نہیں ہوں گے۔ 
 ’میں بھرپور میلہ چھوڑنا چاہتا ہوں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد میں اپنی کچھ زمیں بیچ کر سماجی کام کرنا چاہتا ہوں۔ تیار ہوں میں بالکل ریٹائرمنٹ کے لیے، اگر کسی نے مجھے دوبارہ چیلنج نہ کیا تو۔ میں یہ نہیں چاہتا کہ میں ریٹائر ہوں تو لوگ مجھے چیلنج کریں۔ پھر میں دوبارہ آوں گا۔‘
ساری زندگی دوسروں کے متعلق پیش گوئیاں کرنے والے شیخ رشید اب اپنے متعلق یہ سمجھتے ہیں کہ وہ پانچ سال بعد اس دنیا میں نہیں ہونگے۔
 دس سال بعد خود کو مرا ہوا دیکھتا ہوں۔ پانچ سال بعد بھی مرا ہوا۔ (لیکن) تین سال بعد بہتر جگہ پہ۔‘

شیئر: