Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاک ڈاون میں نرمی کے ساتھ ہی سڑکوں پر ہجوم

لوگ صبح سویرے سے ہی باہر آ گئے تھے(فوٹو عرب نیوز)
سعودی عرب میں کورونا وائرس کے پھیلاو کو روکنے کے لیے مکمل کرفیو کے بعد لاک ڈاون میں مرحلہ وار نرمی کی جا رہی ہے۔
عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ روز پہلے مرحلے میں صبح 6 بجے سے سہ پہر 3 بجے تک لاک ڈاون میں نرمی کی گئی اور عوام کے لیے شاپنگ مالز کھولے گئے اور دیگر کاروباری سرگرمیوں کی اجازت دی گئی۔

مکمل کرفیو کی مدت کے اختتام کے فوری بعد عوام کی بڑی تعداد نے باہر کا رخ کیا۔ جس کے باعث سڑکوں پر ہجوم دیکھنے میں آیا۔ اکثر لوگ معاشرتی فاصلے کے حفاظتی اقدامات اپنانے میں ناکام نظر آرہے تھے۔  
اس موقع پر شہزادہ عبدالرحمن بن مساعد نے اپنے ٹویٹ میں کہا ہے کہ "چوبیس گھنٹوں کا کرفیو ہٹانے کے بعد سڑکوں پر ٹریفک کا ہونا عام بات ہے لیکن جو چیز غیر معمولی اور ناقابل یقین ہے وہ ماسک اور دستانوں کے بغیر لوگوں کا باہر آنا ہے اور دکانوں پر گاہکوں کی بڑی تعداد کے باعث دو میٹر کا فاصلہ نہ اپنانا بھی دیکھا گیا ہے اور یہ ابھی صرف پہلا دن ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ سب دیکھ کر بدقسمتی سے میں نہیں سمجھتا کہ شوال 29 یعنی21 جون کو ہم معمول کے مطابق زندگی گزارنے کی طرف آجائیں گے۔ "
فالو اپ ٹویٹ میں شہزادہ عبدالرحمن نے عوام کو یاد دلاتے ہوئے کہا ہے کہ کورونا وائرس کے  مرض کا ابھی تک کوئی علاج یا ویکسین دستیاب نہیں, انہوں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کیا اس وائرس کی شدت کو محسوس کرنے کے لیے پہلے کسی عزیز سے محروم ہونے کی ضرورت ہوگی۔
یونیورسٹی کے لیکچرر  عبد الفتاح القحطانی  نے ٹویٹ کرتے ہوئے اس بات سے اتفاق کیا: انہوں نے کہا کہ "افسوس  بہت سے لوگ کورونا وائرس کے خطرات کو نہیں سمجھ رہےآپ انتہائی ضرورت کے تحت باہر جائیں اور اپنے پیاروں کا خیال رکھیں۔ جب تک بہت ضروری نہ ہو باہر نہ جائیں۔

اگر آپ کو انتہائی ضرورت کے تحت باہر جانا ہے  تو ماسک پہن کراور معاشرتی فاصلہ برقرار رکھتے ہوئے تمام احتیاطی تدابیر پر عمل کریں۔
ایک اور سعودی شہری عبدالعزیز آل عمر نے بھی تجاویز کے ساتھ جواب دیا۔ انہوں نے ٹویٹ کیا کہ "یہ ضروری ہے کہ احتیاطی قواعد پر عمل نہ کرنے والی دکانوں پر نظر رکھی جائے اور ایسی سہولیات اور دکانوں پر نظر رکھنا اور ماسک نہ لگانے اور دوسروں سے فاصلہ نہ رکھنے والوں کے خلاف جرمانہ عائد کیا جائے۔"
اسی طرح بہت سارے دیگر صارفین نے بھی مشورہ دیا ہے کہ وہ افراد جو معاشرتی فاصلے کو نظرانداز کرتے ہیں اور بغیر کسی ماسک اور دستانوں کے دوسرے لوگوں کے ساتھ ملتے ہیں وہ اس کورونا وائس سے زیادہ دس ہزار ریال کے جرمانے سے زیادہ خوفزدہ ہوں گے۔

تاہم بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ عام لوگ جدہ میں بحر احمر کے  کورنیش کے آس پاس موجود ٹریفک میں زیادتی کر رہے ہیں۔
اس بارے میں سعد مغرم نے ٹویٹ کیا ہے کہ لوگوں پر ٹریفک بڑھانے کا الزام نہ لگائیں۔ ایسے خاندان جو چھوٹے چھوٹے گھروں میں تقریبا تین ماہ سے ایک ساتھ دبے ہوئے تھے  ایک گاڑی میں سوار ہو کر باہر جانا اور آسمان دیکھنا ان کا حق ہے۔
انہوں نے مزید کہا: بھیڑ والی دکانوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے  لیکن کچھ چیزوں کو زیادتی کے بغیر پرسکون طریقے سے نمٹایا جاسکتا ہے۔
کچھ لوگوں نے مملکت میں موجود کئی مشہور سٹوروں کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کو سراہا جو معاشرتی فاصلوں کو نافذ کررہے ہیں۔

عبداللہ الحمید نے ٹویٹر پر تبصرہ کیا ہے کہ: "ہمارے معاشرے میںایسی بیداری کو دیکھنا حیرت کی بات ہے۔ بہت سے لوگ ہیں جو دستانے اور ماسک پہنے ہوئے معاشرتی فاصلہ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
دارالحکومت ریاض میں بھی عوام کی بڑی تعداد سڑکوں پر نظر آئی۔26 سالہ سارہ الجسیر نے عرب نیوز کو بتایا کہ  “ ہاں بالکل میں باہر گئی تھی۔ میں اپنی والدہ اور بہن کو لے کر قریب ترین مال میں چلا گئی تاکہ کچھ وقت باہر گزارا جاسکے، "

تاہم سارہ کا کہنا تھا کہ طویل قطاروں کی وجہ سے وہ مال کے اندر دکانوں میں داخل نہیں ہو پا رہی تھیں۔ “میں حیران تھی کہ لوگ صبح سویرے سے ہی باہر آ گئے تھے۔ انہوں نے کہا ، ہم صبح 9:30 بجے تک مال میں موجود تھے اور ایسی بھیڑ بھاڑ کی توقع نہیں تھی لیکن
2:30 بجے تک زیادہ تر دکانیں اور مال گاہکوں اور دکانداروں سے خالی ہو گئے تھے کیونکہ سہ پہر 3 بجے دوبارہ لاک ڈاون شروع ہونا تھا۔
33 سالہ رائد مصطفی نے عرب نیوز کو بتایا کہ ان کا خیال ہے کہ صورتحال ابھی بھی غیر محفوظ ہے: "صرف اس وجہ سے کہ بازار کھل رہے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ باہر جانا محفوظ ہے۔" اس کے باوجود میں نے ماسک لگایا اور دستانے پہن کر شہر کی سڑکوں پر صبح 6.30 بجے سیر کے لیے نکل گیا۔"
انہوں نے مزید کہا کہ میں اپنی کار میں رہا تا ہم صرف ذہن کو پرسکون کرنے کے لئے کچھ تازہ ہواکا حصول مقصد تھا۔ انہوں نے کہا ، "میں ایک ماہ سے زیادہ عرصے سے ایک چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں بند تھا۔ "مجھے منظرنامے کی اس تبدیلی کی ضرورت تھی۔"
تاہم وزارت صحت کے احکامات کے مطابق حفاظتی اور صحت کے اقدامات کی پاسداری یقینی بنائی اور عام لوگوں سے گھل مل جانے سے پرہیز کیا ہے۔
مصطفیٰ نے کہا کہ سڑکوں پر آنے والے لوگوں کی تعداد دیکھ کر میں پریشان ہو گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ مختلف سڑکوں پر چاروں طرف بل بورڈز رکھے گئے ہیں تاکہ عوام اپنی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے تجویز کردہ احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کو یاد رکھیں۔

شیئر: