Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا ماسک پہننے پر عمل ہو رہا ہے؟

ملک بھر میں حکومت کی طرف سے ماسک کا استعمال لازمی قرار دینے کی ہدایت اور اسلام آباد میں ماسک نہ پہننے والوں کے خلاف جرمانے اور سزا کے نفاذ کے بعد وفاقی دارالحکومت میں زیادہ تر افراد ماسک پہنے شاپنگ کرتے نظر آتے ہیں تاہم کچھ لوگ ابھی تک اس ہدایت کو سنجیدہ نہیں لے رہے اور کھلے عام بغیر ماسک پھرتے پائے جا رہے ہیں۔
اردو نیوز کے سروے کے مطابق اسلام آباد کے پوش علاقوں جیسے ایف اور ای سیکٹرز میں ماسک کی پابندی پر عمل درآمد زیادہ ہے جبکہ گنجان آبادی والے آئی اور جی سیکٹرز میں نسبتاً زیادہ لوگ بغیر ماسک بازاروں میں گھوم رہے ہیں۔
یاد رہے کہ ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقات اسلام آباد نے اتوار کو بتایا تھا کہ وزارت صحت کی جانب سے جاری شدہ گائیڈ لائینز کے تحت تمام عوامی جگہوں پر ماسک پہننا / منہ ڈھانپنا اب لازم قراردے دیا گیا ہے اور مارکیٹس،عوامی مقامات مساجد،پبلک ٹرانسپورٹ، لاری اڈہ، گلیوں، سڑکوں، دفاتر میں چیکنگ ہوگی۔
ڈپٹی کمشنر کے مطابق خلاف ورزی پر تین ہزار تک جرمانے اور دفعہ 188 تعزیرات پاکستان کے تحت جیل بھی بھیجا جا سکتا ہے۔  ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ ماسک نہیں پہن سکتے وہ کم از کم اپنے منہ کو ضرور ڈھانپیں۔
تاہم سوموار کو زیادہ تر مارکیٹس جیسے ایف ٹین مرکز، جی نائن مرکز اور آبپارہ میں کوئی چیکنگ تو نظر نہیں آئی البتہ لوگ عمومی طور پر ماسک پہنے ہی شاپنگ میں مصروف رہے۔
ڈی سی اسلام آباد حمزہ شفقات نے بھی یہ واضح کیا تھا کہ پہلے کوشش کریں گے کہ سخت کارروائی کے بجائے عوامی آگاہی کی طرف جائیں۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے زیادہ تر شہریوں نے ماسک نہ پہننے پر تین ہزار جرمانہ اور جیل بھیجنے کی سزا کو درست اور اسے عوامی مفاد میں قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ کورونا اور لاک ڈاؤن سے بچنے کا  واحد راستہ احتیاط ہی ہے۔ سوموار کو زیادہ تر مارکیٹس میں خریداری کرنے والوں کا زیادہ ہجوم نہیں دکھائی دیا تاہم کچھ خواتین بچوں سمیت شاپنگ میں مصروف نظر آئیں۔

سرکاری عمارتوں اور دفاتر میں داخل ہونے پر لوگوں کا بخار بھی چیک کیا جاتا ہے (فوٹو: روئٹرز)

ماسک کی دستیابی

طلب ورسد کے اصول کے تحت ماسکس کی اسلام آباد میں قلت کا بھی خدشہ تھا تاہم سوموار کو اسلام آباد کی بڑی مارکیٹوں میں اکثر میڈیکل سٹور پر عام ماسک دستیاب تھے جبکہ قیمت 20 سے 30 روپے تک وصول کی جا رہی تھی۔
یاد رہے کہ معاون خصوصی برائے صحت ظفر مرزا نے اتوار کو ایک ٹویٹ میں واضح کیا تھا کہ عام لوگوں کو این 95 ماسک کی ضرورت نہیں بلکہ پرہجوم جگہوں پر جانے کے لیے سرجیکل ماسک کافی ہیں جبکہ این 95 ماسک ڈاکٹروں اور طبی عملے کے لیے لازم ہیں۔
اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر کے مطابق ماسک کی دستیابی کے حوالے سے اقدامات کیے گئے ہیں اور مزید بھی منگوائے جارہے ہیں۔
جی نائن مرکز میں اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ایک شہری کا کہنا تھا کہ ماسک کی قیمت کم رکھنے کے لیے انتظامیہ کو مزید اقدامات کرنے ہوں گے کیونکہ بعض دکانوں پر طلب بڑھنے کی وجہ سے زیادہ دام وصول کیے جا رہے ہیں۔

اردو نیوز کے سروے کے مطابق اسلام آباد کے پوش سیکٹرز میں ماسک پہننے پر عملدرآمد ہو رہا ہے (فوٹو: روئٹرز)

ماسک کے حوالے سے وفاق اور صوبوں میں فرق

گو کہ اتوار کو اسلام آباد میں میڈیا بریفنگ کے دوران وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا تھا  کہ مساجد، بازاروں، دکانوں، پبلک ٹرانسپورٹ، ٹرین، بس، وین میں ماسک پہننا لازمی ہوگا تاہم ماسک نہ پہننے پر جرمانے اور جیل کی سزا کا اعلان صرف اسلام آباد انتظامیہ کی طرف سے سامنے آیا ہے۔
ڈاکٹر ظفر مرزا کے مطابق  سرجیکل اور کپڑے کے ماسک استعمال کیے جاسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایس او پیز اور گائیڈ لائن پر سختی سے عمل کرنے کی ضرورت ہے۔

ماسک کے حوالے سے عالمی ادارہ صحت کا موقف

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ویب سائٹ پر ماسک کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ میڈیکل ماسک پہننے سے کورونا سمیت سانس کی کئی  بیماریوں کا پھیلاؤ روکا جا سکتا ہے۔
’عالمی ادارہ صحت یہ سمجھتا ہے کہ کئی ممالک اپنے لوگوں کو کورونا سے بچاؤ کے لیے  چہرے پر ماسک کے استعمال کی ہدایت کر رہے ہیں اور اس حوالے سے کئی سوالات بھی ہیں۔ تاہم صرف ماسک کے استعمال سے (کورونا کے خلاف) مناسب حد تک تحفظ ممکن نہیں اس لیے دوسرے اقدامات جیسے جسمانی فاصلہ اور ہاتھوں کی صفائی بھی ضروری ہے۔‘

شیئر: