Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’آئیں گے غسال اور کفن چین سے‘

انڈین مارکیٹس میں چینی ساختہ موبائلز سمیت متعدد اشیا مقبول ہیں (فوٹو سوشل میڈیا)
انڈیا چین سرحد پر دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان کشیدگی کے بعد انڈین سوشل میڈیا صارفین نے ’بائیکاٹ چائنہ‘ کی مہم شروع کی تو جہاں بہت سے یوزرز اس کا حصہ بنے وہیں کچھ ایسے بھی تھے جو اس کے دلچسپ پہلوؤں کی نشاندہی کرتے رہے۔
انڈین صارفین نے اپنی بائیکاٹ مہم کی بنیاد کے طور پر لداخ میں پیش آنے والے حالیہ واقعات کا حوالہ دیا جن میں چینی فوج کے اجتماع، انڈین بارڈر فورسز کے ساتھ پیش آنے والے واقعات اور چینی افواج کی پیش قدمی کا ذکر کیا۔
بائیکاٹ مہم کا حصہ بننے والے صارفین کی زیادہ توجہ چینی موبائل فون ایپلیکیشنز ان انسٹال کرانے اور ان کی جگہ متبادل شیئر کرنے پر مرکوز رہی۔ اس مقصد کے لیے صارفین کی جانب سے گوگل پلے سٹور اور دیگر ایپ سٹورز پر موجود ایسی ایپلیکیشنز کی نشاندہی کی جاتی رہی جو چینی اداروں کی بنی ہیں یا انہیں پیش کرنے والے اداروں کے پس پردہ چینی سرمایہ موجود ہے۔
امیت گوہل ان بہت سے صارفین میں شامل رہے جو انڈیا میں گوگل پلے سٹور پر سب سے زیادہ مقبول ایپلیکیشنز میں موجود چینی ایپس کی نشاندہی کرتے ہوئے دوسروں سے ان کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کرتے رہے۔
 

پالاش ڈیبناتھ نے اپنے موبائل فون استعمال کی عادت کا ذکر کیا تو بتایا کہ وہ کون کون سی چینی ایپس استعمال کر رہے تھے اور اب ان کا استعمال ترک کرنا کتنا دشوار ثابت ہو رہا ہے۔
 

خود کو لداخ کے مکین کے طور پر متعارف کرانے والے سونم وانگچک چینی مصنوعات کی بائیکاٹ مہم کے سلسلے میں خاصے متحرک ہیں۔ وہ کئی روز سے بائیکاٹ کے اسباب، نتائج، فوائد اور اہمیت سے متعلق مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔
 

سونم واگچک کی مہم کا حصہ بننے والے اپنی کاوشوں کے نتائج ٹویٹس کی صورت شیئر کرتے ہوئے ان سے مزید جاننے کے متمنی دکھائی دہے۔
 

سابق ٹینس کھلاڑی پرینکا دیو بائیکاٹ مہم کا حصہ بنیں تو انہوں نے اپنے ٹوئٹر پیغام کے ساتھ ایک ویڈیو بھی جاری کی جس میں اس بات کا جائزہ لیا کہ بائیکاٹ کی یہ مہم کتنی ممکن ہو سکتی ہے اور کون کون سے شعبے ہیں جہاں چینی مصنوعات کی برتری نمایاں ہے۔
 
کچھ صارفین نے پرینکا کے پیش کردہ تجزیے سے اتفاق نہیں کیا تو اپنے تبصرے میں اتفاق نہ کرنے کے اسباب پر بھی روشنی ڈالی۔ 
 

انڈیا ٹی وی کے چیئرمین رجت شرما تفصیلی تجزیے کے ساتھ سامنے آئے تو اپنا تبصرہ شیئر کرتے ہوئے مختصر پیغام میں لکھا ’چینی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں اور چین کو سرحد پر دخل اندازی کرنے پر تلخ سبق سکھائیں۔‘
 

گفتگو کے شریک سبھی صارف بائیکاٹ کے آئیڈیا اور اس کی حکمت عملی سے متفق نہ تھے۔ کچھ نے پب جی اور ٹک ٹاک جیسی ایپلیکیشنز ان انسٹال کرنے کے بعد کے مناظر سوچے تو میمز کی صورت دوسروں تک بھی پہنچائے۔
 

روفی ریپبلک نامی ہینڈل نے بائیکاٹ مہم چلانے والے نمایاں ناموں میں سے ایک کے متعلق خبروں کے سکرین شاٹس شیئر کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ دوسروں کو بائیکاٹ کا کہنے والے خود چین کو تجارتی سامان بھیجتے رہے ہیں۔
 

اتل مشرا نامی صارف بائیکاٹ مہم پر اعتراض کرنے والوں کی دلیل اور جوابی دلیل سے ملتی جلتی گفتگو کے ساتھ سامنے آئے تو راجدیپ اور سونم وانگچک کے درمیان ہونے والے مکالمے کا ذکر کیا۔
 

انڈیا میں چینی مصنوعات کی بائیکاٹ مہم کا مذاق اڑانے والے کچھ ہینڈلز ایسے بھی تھے جو چین میں بننے والی ٹی شرٹس اور پی کیپس پہن کر انڈیا میں بائیکاٹ چائنہ مہم چلانے کے تضاد پر گفتگو کرتے رہے۔
 

معیشت سے متعلق مختلف رپورٹس کے مطابق چین اور انڈیا کے درمیان دو طرفہ تجارت کا سالانہ حجم مالی سال 2018 میں تقریبا 90 ارب ڈالر تھا، اس میں چین کا حصہ تقریباً 63 ارب ڈالر کے ساتھ زیادہ بتایا جاتا ہے۔ 1984 میں چین انڈیا تجارتی معاہدے کے بعد تیزی سے بڑھنے والے تجارتی معاملات کے تحت انڈیا چین سے متعدد اشیا منگواتا ہے البتہ الیکٹرانکس مصنوعات، کیمیکلز، بوائلرز، مشینری، ریشم اور منرلز وغیرہ کی مقدار باقی چیزوں سے کہیں زیادہ ہے۔

شیئر: