سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں پاکستان سٹیل ملز کی نجکاری کی کوشش کی گئی تو معاملہ عدالت چلا گیا اور اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے نجکاری رکوا کر عوام میں خوب پذیرائی حاصل کی تھی. اُس وقت سٹیل ملز منافع میں تھی اور شاید اچھی قیمت پر فروخت ہو جاتی، مگر اب نوبت تمام ملازمین کو فارغ کر کے اس پراجیکٹ کو ختم کرنے تک آگئی ہے۔
70 کی دہائی میں روس کے تعاون سے تعمیر ہونے والی پاکستان سٹیل ملز نے 80 اور 90 کی دہائیوں میں خوب منافع کمایا۔ تاریخ کو سامنے رکھتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ فوجی حکمرانوں کے دور میں سٹیل ملز خوب منافع کماتی رہی مگر سیاسی حکومتوں کے آتے ہی بحران کا شکار ہوگئی۔
معاشی و اقتصادی امور کے ماہر ڈاکٹر فرخ سلیم نے اعداد و شمار بتاتے ہوئے کہا کہ 2000 سے 2007 تک مشرف دورِ حکومت میں سٹیل ملز نے 20 ارب روپے منافع کمایا تھا مگر 2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت آنے کے بعد یہ منافع اچانک خسارے میں تبدیل ہوگیا۔ 2007 میں سٹیل ملز نے 2.37 ارب روپے کا منافع کمایا تھا، مگر آصف زرداری کی حکومت کے پہلے سال 2008 میں ہی سٹیل ملز 26 ارب روپے کے خسارے میں چلی گئی۔
فیکٹری کے سابق ملازمین کے بقول ضیاء الحق کے مارشل لا کا دور سٹیل ملز کی تاریخ کا سنہرا دور تھا۔ سابق اسسٹنٹ مینیجر محمد قاسم نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اس وقت اتنا کام ہوتا تھا کہ ہر شفٹ کی ٹیم کا آپس میں کام کا مقابلہ رہتا تھا اور ملازمین کو ٹارگٹ پورا کرنے پر بونس ملا کرتے تھے۔ ایسا معمول تھا کہ ٹارگٹ پورا کرنے والے ملازم بونس اور الاؤنس کی صورت میں ہر ماہ ڈیڑھ گنا تک تنخواہ لیتے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ادارے میں 25 ہزار تک ملازمین کام کرتے تھے، سب کو بروقت تنخواہ کی ادائیگی ہوتی تھی وہ بھی بمعہ الاؤنس اور بونس، ’ایسا کبھی نہ ہوا کہ تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیر ہوئی ہو۔‘
پاکستان سٹیل ملز 90 کی دہائی کے اوائل تک اپنی مکمل صلاحیت پر کام کر رہی تھی اور 95 فیصد کی اوسط پیداوار اختیار کر کے سالانہ 10 لاکھ ٹن سٹیل کی پیداوار حاصل کر رہی تھی۔ محمد قاسم کا کہنا تھا کہ سٹیل ملز کی منافع بخش تاریخ میں خسارہ عثمان فاروقی کی بطور چیئرمین تعیناتی سے شروع ہوا۔
عثمان فاروقی سابق صدر آصف زرداری کے قریبی ساتھی سلمان فاروقی کے بھائی ہیں اور وہ ان کے خلاف سٹیل ملز میں کرپشن کے مقدمات ثابت ہوئے جس کے بعد انہوں نے قومی احتساب بیورو سے پلی بارگین کرتے ہوئے 26 کروڑ روپے قومی خزانے میں جمع کروائے تھے۔
محمد قاسم نے سٹیل مل بند کرنے اور ملازمین کو فارغ کرنے کے حکومتی فیصلے پر حیرت کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’یہ سمجھ سے باہر ہے کہ سٹیل ملز خسارے میں کیسے چلی گئی، یہ تو وہ فیکٹری ہے جس کا فضلہ بھی نیلام ہوتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ 80 اور 90 کی دہائی میں فیکٹری اپنی مکمل صلاحیت پر کام کر رہی تھی اور الاؤنسس لگنے کی وجہ سے ملازمین بھی دلجمعی سے کام کرتے تھے۔ ’پرویز مشرف کے دورِ حکومت تک سٹیل ملز منافع بخش ادارہ تھا، تاہم عام انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت آنے کے بعد سے سٹیل ملز کا برا دور شروع ہو گیا۔‘
سٹیل ملز کے حوالے سے بات کرتے ہوئے محمد قاسم کا کہنا تھا کہ ’فیکٹری کا اپنا ایگریکلچرل ایریا تھا جس میں پھل اور سبزیاں اگائی جاتی تھیں، اس کے علاوہ فضلے سے کھاد بنائی جاتی تھی جسے سٹیل ملز کے اپنے استعمال کے علاوہ فروخت بھی کیا جاتا تھا۔ ساتھ ہی فیکٹری کے رقبے پر کیکڑ کے جنگلات پھیلے ہوئے ہیں جس کی لکڑی کا ہر سال کروڑوں روپے کا آکشن ہوا کرتا ہے۔‘
مشرف کے دور میں سٹیل ملز کی باگ ڈور پہلے لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم اور میجر جنرل ریٹائرڈ محمد جاوید کے ہاتھ میں رہی۔ محمد قاسم بتاتے ہیں کہ جب مشرف دور کے تعینات کردہ چیئرمین نے چارج چھوڑا تو 20 ارب روپے کے منافع کے علاوہ اربوں روپے مالیت کا تیار اور خام مال بھی سٹیل ملز کی ملکیت تھا۔
’یہ میرے سامنے کی بات ہے، اس وقت اتنا تیار مال موجود تھا کہ کولڈ رولنگ ملز اور ہاٹ رولنگ ملز کے احاطے کے گراؤنڈ بھی بھرے ہوئے تھے اور تیار پراڈکٹس ان گراؤنڈز میں رکھی تھیں کیوں کہ ویئر ہاؤس بھر ہو چکے تھے، جبکہ اگلے سال کی پیداوارکے لیے خام مال بھی موجود تھا۔‘
یہی وہ موقع تھا جب 2005 میں پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں سٹیل ملز کی نجکاری کا فیصلہ کیا گیا تاہم اس وقت بھی ملازمین نے احتجاج کیا اور معاملہ سپریم کورٹ میں چلا گیا جس پر اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے سٹیل ملز کی نجکاری روکنے کے احکامات جاری کیے، اس فیصلے پر انہیں عوام کی خوب پذیرائی ملی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ یہی وہ فیصلہ تھا جس کی وجہ سے مشرف نے افتخار چوہدری کو برطرف کردیا اور پھر بعد ازاں اسی فیصلے کے محرکات کے جواب میں عدلیہ بحالی تحریک چلی جس کے نتیجے میں مشرف کا زوال شروع ہوا اور ان کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔
ڈاکٹر فرخ سلیم نے اردو نیوز کو بتایا کہ پرویز مشرف کی حکومت میں 2007 تک سٹیل ملز 20 ارب روپے منافع میں تھی تاہم پیپلز پارٹی کی حکومت آنے کے بعد سے آج تک پھر ایک سال بھی ایسا نہیں آیا کہ جب سٹیل ملز نے منافع کمایا ہو، یہ تب سے مسلسل خسارے میں ہے۔
پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں 100 ارب روپے خسارے میں رہی، نواز لیگ کے دور میں سٹیل ملز کو 140 ارب روپے کا نقصان ہوا جبکہ تحریک انصاف کے حکومت کے دو سال میں ہی 55 ارب روپے کا خسارہ ہو چکا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے انتخابی منشور میں جہاں اور بہت سی باتیں تھیں، وہیں یہ بھی شامل تھا کہ اگر وہ برسر اقتدار آئی تو پاکستان سٹیل ملز کو بحال کرے گی۔
2018 میں اقتدار میں آنے کے بعد پی ٹی آئی نے 2019 میں یہ دعویٰ بھی کیا کہ سٹیل ملز کی بحالی کے حوالے سے لائحہ عمل تیار ہو چکا ہے۔ تاہم گذشتہ ہفتے کابینہ نے فیکٹری کے 9،350 ملازمین کو یک بار رقوم کی ادائیگی کر کے نوکری سے برخاست کرنے کی منظوری دیتے ہوئے اس کے لیے 19.657 روپے روپے کی رقم بھی مختص کردی ہے۔
وزارت صنعت و پیداوار کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق حکومت کی جانب سے 2009-2008 سے اب تک سٹیل ملز کو پانچ مرتبہ بیل آؤٹ پیکج کی مد میں 58 ارب روپے دیے جا چکے ہیں۔ 2013 سے تو تمام تنخواہیں وفاقی حکومت نے ادا کی ہیں جب کہ 2015 میں سٹیل ملز انتظامیہ نے ملازمین کے لیے بنا کسی مؤثر پلان کے فیکٹری میں کام بند کروا دیا۔
سابق مینیجر محمد قاسم کے مطابق 2013-2012 کے بعد ریٹائر ہونے والے بیشتر ملازمین کو ریٹائرمنٹ پر پراویڈنٹ فنڈ اور دیگر رقوم کی ادائیگی نہیں کی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ذاتی طور پر ایسے لوگوں کو جانتے ہیں جنہیں رقوم کی ادائیگی نہیں ہوئی اور ان میں سے بعض کا انتقال بھی ہو چکا۔
فیکٹری میں کام کرنے والے مزدوروں کے رہنما خالد خان نے اردو نیوز کو بتایا کہ حکومت نے ملازمین کو جو رقم دینے کا اعلان کیا ہے وہ کس مد میں ہوگی؟ ’کیا وہ بقایا تنخواہ ہوگی، پراویڈنٹ فنڈ ہوگا یا کوئی خصوصی پیکج۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ملازمین سٹیل ملز کا بند ہونا نہیں چاہتے بلکہ وہ تو کام کرنا چاہتے ہیں مگر اعلیٰ انتظامیہ کی نااہلی اور سیاسی مداخلت کی وجہ سے ادارہ تباہ ہوچکا ہے۔‘
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ کابینہ کمیٹی میں یہ بات بھی زیرِ غور آئی کہ سٹیل ملز ملازمین کی اوسط عمر 46 سال ہے جبکہ اس وقت حاضر سروس ملازمین میں سے جو آدھے ہیں ان کی عمریں 51 سال سے 60 سال ہے۔
ایک سوال کے جواب میں خالد خان کا کہنا تھا کہ حکومت کا ارادہ سٹیل ملز کو بحال کرنے کا نہیں بلکہ اسے ختم کر کے اس کی جگہ کو حاصل کرنے کا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فیکٹری کی 18 ہزار ایکڑ سے زائد اراضی حاصل کرنے کے لیے بہت سے ادارے اور قوتیں برسرِ پیکار ہیں۔
پاکستان سٹیل ملز 18،660 ایکڑ رقبے پر پھیلی ہوئی ہے۔ اقتصادی ماہر ڈاکٹر فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ اس زمین کی مالیت 500 ارب سے زائد ہے اور یہی وہ وجہ ہے جس کے لیے اس ادارے کو تباہ کیا گیا ہے تا کہ اس کی اراضی کو حاصل کیا جا سکے۔
پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے سٹیل ملز ملازمین کو فارغ کیے جانے کے اعلان کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے اس فیصلے سے اختلاف اور اس پر تنقید کی ہے۔
پیپلز پارٹی کے رہنما سعید غنی نے بیان دیا ہے کہ سٹیل ملز کو سندھ حکومت کے حوالے کر دیا جائے، وہ اسے منافع بخش بنائیں گے، تاہم ڈاکٹر فرخ سلیم کے مطابق پیپلز پارٹی کے دور میں ہی سٹیل ملز کا زوال شروع ہوا اور وہ خسارے میں چلی گئی۔
مزدور رہنما خالد خان نے بھی صوبائی وزیر کے بیان کو غیر سنجیدہ قرار دیا، ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کو اس سے پہلے مواقع ملے تھے سٹیل مل کا اختیار لینے کے مگر تب ایسا نہیں کیا گیا اور اب سیاسی بیان بازی کی جا رہی ہے۔
سٹیل ملز کی اراضی کے حوالے سے صوبائی وزیر تعلیم سعید غنی کا کہنا ہے کہ یہ زمین حکومت سندھ کی ملکیت ہے اور اس پراجیکٹ کے لیے دی گئی ہے، اگر اس پراجیکٹ کو ختم کیا جاتا ہے تو پھر اس زمین پر قانونی حق سندھ حکومت کا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی سرکاری اداروں کی زمین کے حصول کے لیے نجکاری کی گئی اور بعد ازاں اس پر ہاؤسنگ سوسائٹیز تعمیر کی گئیں، حکومت سندھ سٹیل ملز کے معاملے میں ایسا نہیں ہونے دے گی۔
حکومتی رپورٹ کے مطابق سٹیل ملز سوئی سدرن گیس کمپنی کے 22 اربروپے کی قرض دار ہے جبکہ اس نے نیشنل بینک سے 36.42 ارب روپے ادھار لیے تھے جو کبھی واپس نہیں ہوئے۔
خالد خان کا کہنا ہے کہ حکومت نے سٹیل ملز کو برسوں پہلے گیس کی فراہمی روک کر خود اس ادارے کا گلا گھونٹا ہے۔ ’فیکٹری کے ورکر تب بھی کام کرنا چاہتے تھے اور اب بھی، مگر ایسا لگتا ہے کہ فیصلہ پہلے ہی کیا جا چکا تھا کہ سٹیل ملز کو ختم کرنا ہے۔‘
دوسری جانب نجکاری کمیشن کی جانب سے فراہم کردہ دستاویزات کے مطابق پاک چائنہ انویسٹمنٹ کمیٹی اور بینک آف چائنہ سے حکومتی ٹیم کے مذاکرات جاری ہیں تا کہ اس فیکٹری کو بحال کیا جا سکے۔ تاہم خالد خان کا کہنا ہے کہ اگر سٹیل ملز کو بحال کرنا مقصد ہے تو پھر ملازمین کو فارغ کیوں کیا جا رہا ہے۔