Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں پیٹرول کا بحران: آخر سستا تیل کہاں غائب ہو گیا؟

عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے پاکستان میں بھی قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا گیا (فوٹو: اے ایف پی)
آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے تسلیم کیا ہے کہ اس وقت ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی فروخت خسارے میں ہو رہی ہے۔ 
اوگرا کے ترجمان عمران غزنوی نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ آئل کمپنیاں 70 سال سے اس ملک سے منافع کما رہی ہیں۔ موجودہ صورت حال میں حکومت نے اگر کوئی فیصلہ کیا ہے تو انہیں اس پر عمل کرنا چاہیے۔
'حکومت تو بلیک میل ہونے سے انکار کر رہی ہے حقیقی مسائل حل کرنے کو تیار ہے۔' 
انہں نے مزید کہا کہ اصل مسئلہ تیل کے ذخیرے میں کمی نہیں بلکہ قیمتوں کا تعین ہے۔ حکومت آج قیمت میں تبدیلی کر دے تو مارکیٹ میں پیٹرول دستیاب ہو جائے گا۔ 
ملک میں جاری پیٹرول کی قلت کو دیکھیں تو کچھ زیادہ پرانی بات نہیں جب خبریں آ رہی تھیں کہ لاک ڈاؤن کے باعث پٹرولیم مصنوعات کے استعمال میں کمی سے قمیتوں میں بھی خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے۔
امریکی آئل مارکیٹ میں تو تیل کی قیمت میں تاریخی کمی ہوئی تھی۔ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے پاکستان میں بھی مئی اور جون میں قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا گیا۔ 
وزیراعظم نے تو ٹویٹ کر کے یہ بھی دعویٰ کیا کہ پاکستان جنوبی ایشیا میں سب سے کم قیمت پر پیٹرولیم مصنوعات عوام کو فراہم کرنے والا ملک ہے۔
ان کی ٹویٹ کے اگلے ہی دن ملک میں پیٹرول کے بحران نے سر اٹھایا اور یہ بحران دیکھتے ہی دیکھتے نہ صرف پورے ملک میں پھیل گیا بلکہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ 
اب اس معاملے پر وزیراعظم اور کابینہ نے نوٹس لیا ہے اور انکوائری ہو رہی ہے۔
وزارت پیٹرولیم آئل مارکیٹنگ کمپنیوں جبکہ یہ کمپنیاں حکومت کو موجودہ صورت حال کا ذمہ ٹھہراتی ہیں۔

پی ایس او نے خط میں تیل بحران سے بچنے کے لیے تجاویز بھی دیں (فوٹو: اے ایف پی)

اردو نیوز کے پاس دستیاب وزارت پیٹرولیم اور اوگرا کے درمیان 25 مارچ سے تین جون تک ہونے والی خط و کتابت کے مطابق اس صورت حال کے تانے بانے دو ماہ پرانے ہیں۔
لاک ڈاؤن کے باعث پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی کھپت میں کمی واقع ہوئی تو 25 مارچ کو پیٹرولیم ڈویژن کی جانب سے تیل کمپنیوں کو تیل درآمد نہ کرنے کے احکامات جاری کر دیے گئے۔ 
آئل ریفائنریز کو بھی تیل کی درآمد کرنے سے روک دیا گیا۔ 
لیکن اس کے 10 دن بعد ہی وزارت پیٹرولیم کی جانب سے اوگرا کو ایک اور خط لکھا گیا جس میں تیل کمپنیوں کے پاس سٹاک نہ ہونے کا اعتراف کیا گیا۔
خط کے مطابق 'پی ایس او کے علاوہ کسی اور کمپنی کے پاس تیل کا سٹاک موجود نہیں ہے۔ تیل کمپنیوں کو اٹک آئل کے پیٹرول پمپس پر تیل فراہم کرنے کی اجازت دی جائے۔'
اپریل کے مہینے میں ٹرانسپورٹ کی بحالی اور گندم کی کٹائی کے باعث پیٹرولیم مصنوعات کی کھپت میں اضافہ ہوا تو 24 اپریل کو حکومت کی جانب سے تیل کی درآمد پر پابندی ہٹا لی گئی۔ 
یکم مئی کو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان ہوا تو 2 مئی کو پی ایس او نے ملک میں تیل بحران پیدا ہونے کے خطرے سے آگاہ کر دیا۔
پی ایس او نے اوگرا کو لکھا کہ تیل کمپنیوں کے پاس ذخیرہ بتدریج کم ہو رہا ہے اور کوئی ایکشن نہیں لیا جا رہا۔ تیل کمپنیوں کے تیل نہ خریدنے کے باعث ریفائنریوں کی پیداوار متاثر اور آپریشنز بند ہو رہے ہیں۔

پیٹرول کے حصول کے لیے لوگوں کی لمبی قطاریں بن جاتی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

خط کے مطابق شیل کے پاس 6، ٹوٹل اور اٹک پیٹرولیم 7، گو کے پاس 4 اور بائیکو کے پاس 9، دن کا ذخیرہ موجود ہے۔ وزارت کے احکامات کے تحت دو کارگو کینسل کرنے سے پی ایس او کے سٹاک قدرے کم ہیں۔ مئی کے پہلے ہفتے میں کمپنیوں کے پاس طلب کے مقابلے میں دو سے تین دن کا ذخیرہ موجود ہوگا۔ 
اپریل کے آخری ہفتے میں تیل کمپنیوں نے تیل کارگوز کی دستیابی کو یقینی نہیں بنایا جس کی وجہ یہ تھی کہ ان کمپنیوں نے مقامی ریفائنریوں سے خریداری نہیں کی۔ 
پی ایس او نے خط میں تیل بحران سے بچنے کے لیے تجاویز بھی دی تھیں۔ 
ان تجاویز کی روشنی میں اوگرا نے 28 مئی کو ہائیڈوکاربن ڈویلپمنٹ انسٹیٹوٹ آف پاکستان (ایچ ڈی آئی پی) کو پیٹرول پمپس پر تیل کی دستیابی کا جائزہ لے کر تین جون تک رپورٹ جمع کروانے کا کہا۔
 29 مئی کو اوگرا نے تمام آئل مارکیٹنگ کمپنیوں سے پیٹرول اور ڈیزل کی ڈپو وائز فروخت اور سٹاک کی تفصیلات طلب کر لیں۔ 
اس دوران جب مسلسل دوسرے مہینے بھی حکومت کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا گیا تو یکم جون کو ڈی جی آئل نے یکم جولائی سے تیل کی قیمت میں ممکنہ اضافے کی پیش گوئی کرتے ہوئے انتباہ کیا کہ کمپنیاں پیٹرولیم مصںوعات کی قیمت میں اضافے کا فائدہ حاصل کرنے کے لیے تیل فراہمی کم کر سکتی ہیں۔
اس اقدام سے ملک بھر میں پیٹرولیم مصنوعات کی قلت ہو سکتی ہے۔ 
دو جون کو اوگرا نے میڈیا میں آنے والی خبروں کی بنیاد پر کمپنیوں کو تیل کی فراہمی یقینی بنانے کی ہدایت کی۔ دو جون کو اوگرا نے سیکرٹری پیٹرولیم کو خط لکھ کر مڈ اور اپ کنٹری میں تیل کی قلت کے بارے میں آگاہ کیا۔

عوام کو پیٹرول کی قلت کا سامنا کئی دنوں سے ہے (فوٹو: اے ایف پی)

اوگرا کا موقف تھا کہ ہائیڈروکاربن انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق آئل ریفائنریز کے پاس سٹاک موجود نہیں ہے۔ 
پیٹرول پمپس کو مناسب وقت پر پیٹرول مصنوعات فراہم نہیں کی جا رہیں۔ کسی بھی ناخوشگوار صورت حال سے بچنے کے لیے ملک میں تیل کا معقول ذخیرہ برقرار رکھا جائے۔ 
صورت حال سے نمٹنے کے لیے تین جون کو اوگرا نے چاروں چیف سیکرٹریز کو تیل کی فراہمی کے حوالے سے خط لکھ کر کہا کہ ڈی سی اوز تیل فراہم نہ کرنے والے پیٹرول پمپس کی تفصیلات اوگرا کو فراہم کریں۔ 
تین جون کو سرکاری دستاویز کے مطابق ملک میں پیٹرول کا سات دن اور ڈیزل کا پانچ دن کا ذخیرہ موجود تھا لیکن پیٹرول پمپس پر عوام کی لمبی قطاروں کو دیکھتے ہوئے 8 جون کو وزیر توانائی نے ڈی جی آئل کی سربراہی میں تیل کی ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ کی تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی۔ 
اس ساری صورت حال کے حوالے سے ملک میں تیل و گیس کے شعبے کو ریگولیٹ کرنے والے ادارے اوگرا کا مؤقف یہ ہے کہ جب حکومت نے تیل کی درآمد پر پابندی ختم کی اور سب کمپنیوں نے آرڈرز دے دیے۔
اس دوران پاکستان نے ملک میں نئی قیمتوں کا اعلان کر دیا تاہم بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمت میں اضافہ ہو چکا تھا۔ 
ترجمان اوگرا عمران غزنوی کے مطابق کمپنیوں نے اس خسارے سے بچنے کے لیے تیل کی قلت کا شور ڈلوایا جس سے لوگوں نے گھبراہٹ میں زیادہ خریداری کی اور حقیقت میں سٹاک ختم کر دیا کیونکہ ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں تیل پہنچانے کے لیے پانچ دن درکار ہوتے ہیں۔ 
ان کے بقول 'دو بڑی کمپنیوں نے اپنے کارگو جان بوجھ کر مس کیے جس کی وجہ سے پی ایس او پر سو فیصد بوجھ میں اضافہ ہوا۔' 
انھوں نے کہا کہ اس صورت حال میں اوگرا نے چھ کمپنیوں کو شوکاز نوٹس جاری کیے جن پر کارروائی مکمل ہو چکی ہے۔ ایک دو دن میں فیصلہ بھی آ جائے گا۔ 
ترجمان کے مطابق منگل کی رات کراچی میں ایک ڈپو پر چھاپہ مارا گیا جہاں پر تیل جان بوجھ کر روکا گیا تھا اور سپلائی نہیں کی جا رہی تھی۔ ملوث کمپنی کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی جائے گی۔ 
ترجمان نے دعویٰ کیا کہ اوگرا کی کارروائیوں کے نتیجے میں سپلائی بحال ہو رہی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ملک بھر کے ڈپوز پر جا کر سٹاک کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ 

ملک کے بڑے شہروں میں پیٹرول پمپس بند ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

دوسری جانب آل پاکستان پیٹرولیم ریٹیلرز ایسوسی ایشن کے بانی رکن عبداللہ غیاث پراچہ نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ حکومت کا کام عوام اور کاروباری طبقات دونوں کے مفادات کا خیال رکھنا ہوتا ہے۔ حکومت جب کسی ایک کے مفادات کا خیال کرتی ہے تو معاملات خراب ہوتے ہیں۔ 
'حکومت نے ملکی مفاد میں تیل کی درآمد پر پابندی عائد کر دی لیکن پابندی ہٹانے سے قبل پی ایس او کو آگاہ کر دیا تھا کیونکہ حکومت ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا تعین پی ایس او کی درآمدی قیمت کو سامنے رکھ کر کرتی ہے۔'
انھوں نے کہا کہ 'جب باقی کمپنیوں نے تیل درآمد کرنا چاہا تو اس کی قیمت بڑھ چکی تھی۔ وہ مہنگا خرید کر سستا بیچنے کو تیار نہیں تھے اس لیے انھوں نے اپنے آرڈرز منسوخ کر دیے جس سے ملک میں بحران پیدا ہوا۔ جن دو کمپنیوں کےبپاس ذخیرہ ہے وہ قانون کے مطابق صرف اپنے پیٹرولیم سٹیشنوں پر ہی پیٹرولیم فروخت کرنے کے پابند ہیں۔ حکومت اگر بحران ختم کرنا چاہتی ہے تو انھیں اجازت دے کہ وہ دوسری کمپنیوں کو بھی فروخت کر دیں۔'
انھوں نے کہا کہ 'مستقبل میں بھی اس طرح کی صورت حال سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ قیمت کا تعین اوپن مارکیٹ کے طرز پر کیا جائے۔ جو مہنگا بیچے گا عوام اس سے نہیں خریدیں گے یہی مسئلے کا حل ہے۔'
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ 'پیٹرول پمپ مالکان اس وقت دوہری اذیت کا شکار ہیں۔ حکومت نے سارا ملبہ پیٹرول پمپس پر گرا دیا ہے جس وجہ سے ایک طرف عوام گالیاں دیتے اور توڑ پھوڑ کرتے ہیں تو دوسری طرف حکومتی ادارے کارروائیاں کر رہے ہیں۔' 
اس حوالے سے سے اوگرا کا کہنا ہے کہ کارروائی صرف اسی پیٹرول سٹیشن کے خلاف ہوگی جو تیل ہونے کے باوجود فروخت نہیں کر رہا ہوگا یا مہنگا فروخت کرے گا۔ 
 

شیئر: