Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

طیارہ حادثہ: پنجاب کی لیبارٹری سے دوبارہ ٹیسٹ کا مطالبہ

پی آئی اے طیارہ حادثے میں ہلاک ہونے والے مسافروں کے اہلِ خانہ نے میتوں کی شناخت کے عمل کو متنازع قرار دیتے ہوئے الزام عائد کیا کہ سندھ حکومت کی ڈی این اے لیبارٹری نے غلط رپورٹس جاری کیں جس کی وجہ سے کئی میتیں تبدیل ہوگئیں جب کہ ابھی تک دو میتیوں کی شناخت نہیں ہو سکی۔
انہوں نے تمام لواحقین کا دوبارہ ڈی این اے پنجاب فرانزک لیبارٹری سے کروانے کا مطالبہ کیا تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ کون کہاں دفن ہے۔
ہفتے کو کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پی آئی اے طیارہ حادثے میں ہلاک مسافروں کے اہلِ خانہ نے سندھ حکومت کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ حکومت کی جانب سے واقعے کے بعد نہ تو کوئی ہیلپ ڈیسک یا کاؤنٹر بنایا گیا نہ ہی کسی کو فوکل پرسن بنایا گیا۔
عارف اقبال فاروقی کی زوجہ اور تین بچے اس حادثے میں ہلاک ہوئے، ان کا کہنا تھا کہ واقعے کے فوراً بعد ہی پنجاب فرانزک سائنس لیبارٹری کی ٹیم کراچی آئی تھی لیکن سندھ حکومت نے معاملے کو سیاسی رنگ دیتے ہوئے اس ٹیم کو کام کرنے نہیں دیا۔
 ان کے اس دعوے کی توثیق پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ کے بیان سے بھی ہوتی ہے جن کا کہنا تھا کہ واقعے کے فوراً بعد پی آئی اے نے پنجاب فرانزک لیبارٹری کی خدمات مانگی تھیں اور اگلی ہی فلائیٹ سے ٹیم کراچی پہنچ بھی چکی تھی تا کہ ڈی این اے سیمپلز اکھٹے کیے جا سکیں، مگر سندھ حکومت کی جانب سے انہیں کام کرنے نہیں دیا گیا۔
عارف اقبال کا کہنا تھا کہ میتیوں کی شناخت میں بدانتظامی اور تاخیر سے پریشان ہو کر انہوں نے سوشل میڈیا کا سہارا لیا جس کے بعد پنجاب فرانزک لیبارٹری نے ان سے رابطہ کیا اور مدد فراہم کی۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی یونیورسٹی نے متعدد رپورٹ غلط جاری کیے مگر تب تک لواحقین کو اتنا پریشان کیا جا چکا تھا کہ جس کو جو میت ملی اس نے شکر ادا کیا۔
ان کے بقول ایک میت کے متعدد لوگ دعویدار تھے لہٰذا جامعہ کراچی سے جس نے بھی ڈی این کروایا ہے وہ دوبارہ تصدیق کروا لیں۔

لواحقین مطالبہ کر رہے ہیں کہ شناخت کے لیے دوبارہ ڈی این اے پنجاب فرانزک لیبارٹری سے کیا جائے (فوٹو: اے ایف پی)

یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ حادثے کے اگلے روز ہی ڈی این اے سیمپل جمع کروانے والے عبدالموسط کو آج حادثے کو 22 دن گزرنے کے بعد بھی اپنے جواں سال بیٹے مجتبیٰ کی میت نہیں دی گئی۔
ان کا کہنا ہے کہ پنجاب فرانزک لیبارٹری نے جس میت کو ان کے بیٹے کا قرار دیا تھا وہ میت کسی اور کے حوالے کردی گئی۔
احمد مجتبیٰ کے بھائی ڈاکٹر احمر مرتضیٰ نے پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ انہوں نے جامعہ کراچی کو سیمپل جمع کروایا تھا مگر انہوں نے جواباً کوئی رزلٹ یا ڈاکیومنٹ نہیں دیا ہے ابھی تک۔
’بعد میں اپنی مدد آپ کے تحت پنجاب فرانزک لیبارٹری سے ٹیسٹ کروایا، انہوں نے جس باڈی سے میچ کروایا وہ باڈی پی آئی اے سٹیورڈ عبدالقیوم کے اہلِ خانہ کو دے دی گئی۔ حالاں کہ پنجاب لیبارٹری کے مطابق اُس باڈی کا ڈی این اے عبدالقیوم کے گھر والوں کے ڈی این اے سے میچ نہیں ہوا۔‘
طیارہ حادثے میں ہلاک ہونے والے مرزا وحید بیگ کی ہمشیرہ غزل بیگ کا کہنا تھا کہ انہوں نے خود سے جس میت کی شناخت کی تھی وہ انہیں حوالے نہیں کی جارہی تھی پھر انہوں خود سے پنجاب فرانزک لیبارٹری سے رابطہ کر کے اپنی مدد آپ کے تحت سیمپلز ان تک پہنچائے۔
’وہاں سے جو رزلٹ آئے اس کے مطابق ہماری باڈی دوسری فیملی کے حوالے کر رہے تھے۔‘
غزل کا کہنا تھا کہ ’جامعہ کراچی سے دوبارہ ٹیسٹ کروانے کی کوشش کی مگر یونیورسٹی نے بالکل صحیح گائیڈ نہیں کیا لہٰذا خود ہی ٹیسٹ پنجاب بھجوانے پڑے۔‘
طیارہ حادثے میں ہلاک ہونے والی خاتون کے دیور مبین ادریس نے بتایا کہ ’جامعہ کراچی نے نہ صرف رزلٹ دینے میں تاخیر کی بلکہ غلط رزلٹ بھی دیے۔‘

کراچی میں طیارہ حادثہ 22 مئی کو پیش آیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

مبین ادریس کا کہنا تھا کہ جب پنجاب فرانزک لیبارٹری سے ٹیسٹ کروایا گیا تو انہوں نے جس باڈی کو ان کی بھابی کا قرار دیا تھا وہ باڈی جامعہ کراچی کی رپورٹ کی روشنی میں کسی اور کو حوالے کی جا رہی تھی مگر وہ بھی لینے سے انکار کر رہے تھے کیوں کہ انہیں واضح لگ رہا تھا کہ وہ میت ان کے پیارے کی نہیں۔ ’
’پھر ہم دونوں خاندانوں نے دوبارہ سیمپل پنجاب فرانزک لیبارٹری بھیجے، ہمارا رزلٹ وہی آیا جو پہلے تھا جبکہ جامعہ کراچی نے غلط رپوٹ جاری کی تھی۔‘
مبین نے واضح کیا کی پنجاب فرانزک لیبارٹری کو جتنی بار بھی جس نے بھی سیمپل بھجوائے وہ اپنی مدد آپ کے تحت بھجوائے، اس حوالے سے سندھ حکومت کی جانب سے کوئی سہولت فراہم نہیں کی گئی۔
پی آئی اے کی پرواز پی کے8303 کے ہلاک مسافروں کے اہل خانہ نے مطالبہ کیا ہے کہ ڈی این اے سیمپلنگ دوبارہ کروائی جائے۔ پریس کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ وہ تمام لوگ یہ چاہتے ہیں سیمپلز پنجاب فرانزک لیبارٹری کو بھجوائے جائیں کیوں کہ انہیں جامعہ کراچی کی ٹیسٹنگ پر بالکل اعتماد نہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ یہ مدعا بین الاقوامی سطح پر اٹھائیں گے انٹرنیشنل لیبارٹری سے ٹیسٹ کروائیں گے تا کہ یہ پتا چل سکے کہ کس قبر میں کون دفن ہے۔
دوسری جانب بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی و حیاتیاتی علوم (آئی سی سی بی ایس) جامعہ کراچی کے سربراہ اور کامسٹیک کے کوارڈینیٹر جنرل پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال چوہدری کا کہنا ہے کہ جامعہ کراچی میں قائم سندھ فرانزک ڈی این اے اور سیرولوجی لیبارٹری (ایس ایف ڈی ایل) میں سوختہ لاشوں کی تشخیص کا عمل بین الاقوامی معیار کے مطابق تمام تر باریک بینی اور سو فیصد مصدقہ نتائج کے ساتھ مکمل ہوا ہے۔
ہفتے کو سندھ فرانزک ڈی این اے لیبارٹری میں منعقدہ ایک اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ اس پورے سانحے میں سندھ فرانزک ڈی این اے لیبارٹری کا تعلق صرف تجزیے اور تحلیل سے رہا ہے جبکہ سیمپلنگ، کوڈنگ، ٹیگنگ اور لاشوں کی ان کے ورثا تک منتقلی کا عمل میڈیکو لیگل ڈیپارٹمنٹ کی ذمہ داری تھی۔


اس حادثے میں مقامی آبادی کو بھی نقصان پہنچا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

 پروفیسر اقبال چوہدری نے ڈی این اے سے متعلق تجزیوں کے حوالے سے بے بنیاد الزام تراشیوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے الزام لگایا کہ کچھ مخصوص عناصر سندھ کی پہلی فرانزک ڈی این اے لیبارٹری کے خلاف میڈیا مہم چلانے میں مصروف ہیں۔
سندھ ڈی این اے لیبارٹری کے انچارج ڈاکٹر اشتیاق احمد نے کہا کہ پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی نے غیر ضروری اور غیر قانونی طور پر یعنی اعلیٰ حکام کی اجازت کے بغیر سندھ فرانزک ڈی این اے لیبارٹری کے تحقیقی امور میں مداخلت کرنے کی بھی کوشش کی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پنجاب فرانزک لیبارٹری کی ٹیم نے 23 مئی کو ایس ایف ڈی ایل کا اچانک دورہ کیا اور غیر قانونی طور پر سیمپل اور کیس ریکارڈ بھی طلب کیا۔
 ڈاکٹر اشتیاق نے الزام لگایا کہ پنجاب فرانزک ایجنسی نے براہ راست لاشوں کے سیمپل غیر قانونی طور پر حاصل کیے، انہوں نے بنیادی تحقیقی اصولوں کی پاسداری نہیں کی لہذا ان کے نتائج میں درستگی کی کمی یقینی ہے۔
انہوں نے کہا سندھ فرانزک ڈی این اے لیبارٹری تمام تر تحقیقی ریکارڈ رکھتی ہے اور ادارے میں کی جانے والی تحقیق کی درستگی کو ثابت کرسکتی ہے۔

شیئر: