Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مشہور اداکارہ صبیحہ خانم کا امریکہ میں انتقال

صبیحہ خانم امریکہ میں اپنی پوتی سحرش خان کے ساتھ۔۔ فوٹو: سوشل میڈیا
لازوال اداکاری سے ہر کردار کو امر کر دینے والی ہر دلعزیز اداکارہ صبیحہ خانم اب ہم میں نہیں رہیں۔
قیام پاکستان کے بعد پاکستان فلم انڈسٹری کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا تھا ایسے میں صبیحہ خانم جیسے اداکار ہی تھے جو انڈسٹری کو عروج پر لے جا سکتے تھے ۔ اُس دور میں اس باکمال فنکارہ نے فلم انڈسٹری کو کمال سپر ہٹ فلمیں دیں۔
صبیحہ خانم پاکستانی سلور سکرین کی وہ پہلی خاتون تھیں جنہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی ملا۔
صبیحہ نے سید موسیٰ رضا عرف سنتوش کمار سے شادی کی۔ دونوں کی محبت کی شادی تھی واضح رہے کہ سنتوش کمار کی صبیحہ سے یہ دوسری شادی تھی۔
صبیحہ نے شوہر کی وفات کے برسوں بعد ایک انٹرویو میں کہا ’سنتوش کمار کی وفات کے بعد میں بکھر سی گئی تھی، زندگی ایسے بدلی کے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کیا کروں، شوٹنگز پر جانے کو دل نہیں کرتا تھا۔‘
 1950/60 کی دہائی کی اس اداکارہ کا اصل نام مختار بیگم تھا۔ اُس وقت کے مشہور سٹیج ڈرامہ رائٹر اور شاعر نفیس خلیلی نے ان کا نام مختار بیگم سے صبیحہ خانم رکھا۔ یہ نام مختار بیگم کو بہت راس آیا۔
صبیحہ خانم  16 اکتوبر 1935 کو گجرات ( پنجاب) میں پیدا ہوئیں۔ وہ مشہور فنکار  جوڑے  ماہیا اور بالو کی بیٹی تھیں، ان کا پہلا پراجیکٹ ڈرامہ ’بت شکن‘ تھا جبکہ فلمی کیرئیر کا آغاز مسعود پرویز کی فلم ’بیلی‘ سے کیا جو کہ 1949میں نمائش پذیر ہوئی۔

صبیحہ نے شوہر کی وفات کے برسوں بعد ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ سنتوش کمار کی وفات کے بعد میں بکھر سی گئی (فوٹو:سوشل میڈیا)

اس میں ان کے مقابل سنتوش کمار نے اداکاری کے جوہر دکھائے ۔ اس کے بعد انہوں نے ’’دو آنسو‘‘ ’’آغوش ‘‘ میں اہم کردار نبھائے۔ ان کی اداکاری کی وجہ سے ان کو نوٹس کیا جانے لگا۔
 بطور اداکارہ ان کی انڈسٹری میں جگہ بن رہی تھی لیکن 1953 میں انور کمال پاشا کی فلم ’’غلام‘‘  ان کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچانے کی وجہ بنی۔ اس کے بعد تو نہ رکنے والا سلسلہ چل نکلا ۔
کمال کی بات یہ تھی کہ فلم ’’گمنام اور دلا بھٹی کی ریلیز کے بعد صبیحہ خانم کو کسی بھی فلم کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جانے لگا۔ ان کی فلمیں سلور اورگولڈن جوبلی کرنے لگیں۔ 
صبیحہ نے پھر کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا ۔ انہیں فلم ’اک گناہ اور سہی‘ کے لیے تاشقند فلم فیسٹیول میں بہترین اداکارہ کا ایوارڈ بھی ملا ۔ فلم سرفروش میں ان کی اداکاری کو بھلا کون بھلا سکتا ہے ۔
انہوں نے جن فلموں میں کام کیا ان میں ہماری بستی، غیرت، پنجرا، برکھا، سیلاب ، آغوش، رات کی بات ،سسی ،انتقام،محفل، قاتل،سہارے، سوہنی ، طوفان، ناجی ، تیرے بغیر ، آجکل، ایاز، راہ گزر ، سلطنت، شام ڈھلے، موسیقار، دامن، رشتہ ، شکوہ ، دیوانہ ، عشرت، کنیز، سوال ، تصویر ،دیور بھابھی ،ستم گر ،آگ،کمانڈر ،ناہید،لاڈلہ،ماں بیٹا ،پاکدامن،انجمن، مترئی ماں، محبت رنگ لائے گی، سجنا دور دیا ، بندہ بشر،گرہستی کے نام قابل ذکر ہیں۔

صبیحہ خانم کے گائے ہوئے نغمے ’جگ جگ جیے میرا پیارا وطن‘ اور ’سوہنی دھرتی اللہ رکھے  قدم قدم آباد‘ نے خاصی مقبولیت حاصل کی (فوٹو:سوشل میڈیا)

اُس دور میں بہت سارے اداکار تھے جن کے ساتھ صبیحہ کو کاسٹ کیا گیا لیکن سنتوش کمار کے ساتھ ان کی جوڑی کو بے حد سراہا گیا۔ دونوں نے ایک ساتھ کئی سپر ہٹ فلمیں دیں۔ یہی نہیں اس دور میں شمیم آرا اور سورن لتا جیسی ادکارائیں بھی انڈسٹری میں موجود تھیں لیکن جو شہرت صبیحہ کے حصے میں آ رہی تھی اس کا مقابلہ کوئی نہیں کر پا رہا تھا ۔
صبیحہ اردو فلمیں کرتیں تو لگتا ان سے بہترین اردو کا لہجہ کسی کا نہیں ہو سکتا پنجابی فلمیں کرتیں تو لگتا کہ ان سے اچھی پنجابی کوئی بول ہی نہیں سکتا اس کی مثال کی سپر ہٹ فلم ’دلا بھٹی‘ ہے۔
فلموں کے ساتھ ساتھ انہوں نے گلوکاری بھی کی۔ ان کا گایا ہوا نغمہ ’جگ جگ جیے میرا پیارا وطن‘ اور ’سوہنی دھرتی اللہ رکھے  قدم قدم آباد‘ نے خاصی مقبولیت حاصل کی۔
انہوں نے  ایک بار پی ٹی وی کے پروگرا م ’سلور جوبلی‘ میں اپنی 1962 کی فلم ’موسیقار‘ کا گانا ’یاد کروں تجھے شام سویرے‘ گا کر سنایا تو  وہاں موجود تمام لوگ ان کے احترام میں کھڑے ہو گئے اور کافی دیر تک تالیاں بجاتے رہے ۔
بڑی سکرین کے ساتھ ساتھ انہوں نے چھوٹی سکرین پر بھی اداکاری کے جوہر دکھائے اور اپنے چاہنے والوں کا دل جیتا۔ جی ہاں انہوں نے ٹی وی ڈراموں میں بھی کام کیا۔

صبیحہ اردو فلمیں کرتیں تو لگتا ان سے بہترین اردو کا لہجہ کسی کا نہیں ہو سکتا پنجابی فلمیں کرتیں تو لگتا کہ ان سے اچھی پنجابی کوئی بول ہی نہیں سکتا (فوٹو:سوشل میڈیا)

صبیحہ خانم کئی برس پہلے اداکاری کو خیرباد کہہ کر امریکہ میں اپنے بچوں کے پاس جا بسیں۔ ایک عرصے سے وہ اپنی بیٹی کے ساتھ رہ رہی تھیں ان کی چھوٹی بیٹی اور بیٹا بھی وہیں قیام پذیر ہیں۔
صبیحہ سنیچر کی صبح ورجینیا، امریکہ میں خالق حقیقی سے جا ملیں۔ ان کے چاہنے والے یقینا سوگوار ہیں ان کی پاکستان فلم انڈسٹری کے لیے خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
ان کے آج بھی زبان زد عام گیتوں میں
لٹ الجھی سلجھا جا رہے بالم
پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے
گائے گی دنیا گیت میرے
گونگھٹ اٹھا لوں  گھونگھٹ نکالوں
’رقص میں ہے سارا جہاں‘ قابل ذکر ہیں۔
صبیحہ خانم کی وفات پر ان کے نام سے  ٹوئٹر پر ان کے مداحوں نے ٹرینڈ بنایا ہے جہاں سوشل میڈیا صارفین لیجنڈری اداکارہ کو خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں۔
پاکستانی ماڈل و اداکارہ ژالے سرحدی نےصبیحہ خانم کی وفات پر ٹویٹ کیا کہ ان کو پاکستان کی پہلی خاتون سپر سٹار قرار دیا ہے۔

شیئر: