Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تمام جہاز چلتے پھرتے میزائل لگتے ہیں، سپریم کورٹ

سپریم کورٹ نے دو ہفتے میں ڈی جی سی سول ایوی ایشن سے جواب طلب کر لیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
سپریم کورٹ میں کورونا ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے  پی آئی اے کے پائلٹس کی جعلی ڈگریوں کا نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے تمام جہاز چلتے پھرتے میزائل لگتے ہیں، کچھ معلوم نہیں کہ مسافروں سے بھرے میزائل کب کہاں پھٹ جائیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایسے لگتا ہے جیسے پائلٹ چلتا ہوا میزائل اڑا رہے ہوں، وہ میزائل جو کہیں بھی جا کر پھٹ جائے۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے دوران سماعت سوال کیا کہ 'بتایا جائے کہ پائلٹس کو جعلی لائسنس کیسے اور کیوں جاری ہوئے؟'
جسٹس گلزار نے کہا کہ 'چیف اسمبلی کی کارروائی دیکھ کر حیران ہو رہا تھا۔ کل (بدھ) کو ایوان میں وزیر ہوا بازی کا بیان سن کر حیرت ہوئی۔'
سپریم کورٹ نے دو ہفتے میں ڈی جی سی سول ایوی ایشن سے جواب طلب کر لیا ہے۔
عدالت نے تمام ایئرلائنز کے سربراہان سے کہا کہ پائلٹس کی ڈگریوں اور لائسنس کی تصدیق پر مبنی رپورٹس بھی فراہم کی جائیں۔
عدالت نے اپنے ریمارکس میں یہ بھی کہا کہ مسافروں کی جان خطرے میں ڈالنا سنگین جرم ہے۔ 'بتایا گیا ہے کہ 15 سال پرانے جہاز میں کوئی نقص نہیں تھا، سارا ملبہ پائلٹ اور سول ایوی ایشن پر ڈالا گیا ہے۔'
عدالت نے کہا کہ 'لگتا ہے کہ ڈی جی سول ایشن کو بلانا پڑے گا۔'

چیف جسٹس نے سوال کیا '۔۔۔پائلٹس کو جعلی لائسنس کیسے اور کیوں جاری ہوئے؟' فائل فوٹو: اے ایف پی

خیال رہے کہ بدھ کو پاکستان کے وفاقی وزیر برائے ہوا بازی غلام سرور خان نے قومی اسمبلی میں کراچی طیارہ حادثے کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا تھا کہ ملک میں کل 860 ایکٹو کمرشل پائلٹس میں سے 262 پائلٹس کے لائسنس مشکوک ہیں کیونکہ انہوں نے سول ایوی ایشن اتھارٹی سے لائسنس لینے کے لیے اپنی جگہ کسی اور سے امتحان دلوایا۔
وفاقی وزیر کے اس انکشاف کے بعد پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ نے اردو نیوز کو بتایا تھا کہ قومی ایئر لائن نے فیصلہ کیا ہے کہ اپنے ان تمام 150 پائلٹس کو گروانڈ کر دے جن کے نام جعلی لائسنس کی لسٹ میں شامل ہوں۔

’باہر سے منگوائی جانے والی ادویات کس کو دی جاتی ہیں’

کورونا ازخود نوٹس کیس کے وقت این ڈی ایم اے کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ پر چیف جسٹس نے کہا کہ نہیں کہ این ڈی ایم اے کیسے کام کر رہا ہے، اربوں روپے ادھر ادھر خرچ ہو رہے ہیں، معلوم نہیں کہ ان اخراجات کی کوئی نگرانی بھی ہے یا نہیں۔
چیف جسٹس نے دوران سماعت کہا کہ این ڈی ایم اے باہر سے ادویات منگوارہی ہے، کس مقصد کے لیے منگوائی جا رہی ہے اور جو ادویات باہر سے آرہی ہیں ان کی ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی سے منظوری ہونی چاہیے۔


عدالت نے کہا ادویات کی ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی سے منظوری ہونی چاہیے (فوٹو: فیس بک این ڈی ایم اے)

اٹارنی جنرل نے کہا ادویات کی منظوری ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی دیتی ہے۔
جسٹس اعجاز الحسن نے استفسار کیا کہ باہر سے منگوائی جانے والی ادویات کس کو دی جاتی ہیں۔
چیف جسٹس نے پوچھا کیا ایسی سہولت فراہم کرنے کے لئے این ڈی ایم اے نے کوئی اشتہار دیا؟
چیف جسٹس نے کہا کہ این ڈی ایم اے نے صرف ایک نجی کمپنی کو سہولت فراہم کی۔ ’ہم چاہتے ہیں ہر چیز میں شفافیت ہو‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ این ڈی ایم اے اسی نجی کمپنی سے این 95ماسک نہیں خرید رہی ہے۔

شیئر: