Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وزیراعظم سٹیزن پورٹل، بیرون ملک سے دلچسپ شکایات

وزیراعظم ڈیلیوری یونٹ کے مطابق اب تک 21 لاکھ شکایات کا ازالہ کیا گیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی موجودہ حکومت نے اپنے قیام کے کچھ ہی عرصے بعد سرکاری اداروں سے متعلق عوامی شکایات اور ان کے حل کے لیے پاکستان سٹیزن پورٹل کا اجراء کیا تو نہ صرف پاکستان کے اندر بلکہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے بھی اسے خوش آئند قرار دیا۔ 
اس پورٹل کے اعداد وشمار بھی بتاتے ہیں کہ عوام کی بڑی تعداد اپنے مسائل کے ازالے کے لیے اس سے رجوع کر رہی ہے۔ وزیراعظم ڈیلیوری یونٹ کے مطابق اب تک 21 لاکھ شکایات کا ازالہ کیا گیا ہے۔ 
شکایات کرنے والوں میں سمندر پار پاکستانی سب سے آگے ہیں جن کی جانب سے 28 اکتوبر 2018 سے اب تک 30 شعبوں یا محکموں سے متعلق ایک لاکھ 22 ہزار 619 شکایات درج کرائی گئی ہیں۔ 
جہاں اکثریت شکایات سنجیدہ نوعیت کی ہوتی ہیں وہیں کچھ سادہ لوح شہریوں کی جانب سے بھی دلچسپ و منفرد شکایات، تجاویز، سوالات اور ردعمل بھی پورٹل پر دیکھنے کو ملتے ہیں۔
اردو نیوز کو دستیاب دستاویز کے مطابق کچھ شہریوں کی شکایات انتہائی دلچسپ ہیں۔ بیشتر شکایت کنندگان اپنی شکایت میں وزیراعظم عمران خان کو براہ راست مخاطب کرتے ہیں۔
سعودی عرب میں مقیم ایک پاکستانی نے وزیراعظم سے شکایت کی کہ انہوں نے پاکستان کے شہر حیدر آباد کے ایک رہائشی سے یوٹیوب چینل خریدنے کا سودا 20 ہزار میں کیا لیکن وہ پیسے وصول کر کےغائب ہو گیا۔ 
شکایت کنندہ نے بتایا کہ یوٹیوب چینل کے پانچ ہزار سبسکرائبر ہونا تھے اور یہ بھی طے پایا تھا کہ وہ چار ہزار منٹس دیکھا گیا ہوگا۔
’میں نے اپنے چھوٹے بھائی کو 20 ہزار روپے چینل کے مالک کو ایزی پیسہ کے ذریعے بھیجنے کا کہا جو اسے یکم جولائی کو موصول ہوئے۔‘

ایک لاکھ سے زیادہ سمندر پار پاکستانی شکایات درج کروا چکے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

شکایت کنندہ نے مزید کہا کہ پیسے وصول کرنے کے باوجود اس شخص نے چینل پر کام نہیں کیا اور غائب ہو گیا۔
’اب وہ میرے میسیج پڑھ رہا ہے لیکن ان کا جواب نہیں دے رہا۔ وہ حیدرآباد (سندھ) میں کسی جگہ رہتا ہے اور مجھے اس کا اصل پتہ معلوم نہیں ہے۔ اس بندے کے خلاف کارروائی کی جائے۔‘
بحرین میں مقیم ایک شہری نے لکھا کہ ’یہ شکایت نہیں بلکہ ایماندار عمران خان کے نام پیغام ہے۔ میں آٹھ سال سے بحرین میں پاکستانی شیف کے طور پر کام کر رہا ہوں۔ میں نے یہاں سے صحت اور خوراک کے بارے میں بہت کچھ سیکھا ہے۔ وزیراعظم عمران خان صاحب سے درخواست ہے کہ اگر آپ مجھے صحت کے شعبہ میں موقع دیں تو میں بھی آپ کی طرح واپس آ کر پاکستان کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہوں۔‘
دبئی میں مقیم پاکستانی خاتون نے لکھا کہ ’میرے اور میرے شوہر کے پاس متحدد عرب امارات کا ڈرائیونگ لائسنس ہے لیکن اب ہم پاکستانی ڈرائیونگ لائسنس بھی چاہتے ہیں۔ مہربانی کر کے مجھے اس کا طریقہ بتا دیں کیونکہ میں آٹو میٹک کار چلاتی ہوں اور پاکستان میں لائسنس بنانے والے مینوئل پر ڈرائیونگ ٹیسٹ لیتے ہیں۔‘

شکایات درج کرنے والوں میں سمندر پار پاکستانی سب سے آگے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے کہا کہ ’میرے شوہر چالیس سال سے اور میں پانچ سال سے ڈرائیونگ لائسنس ہولڈر ہیں لیکن پنجاب ٹریفک پولیس کا کہنا ہے کہ اگر اوور سیز لائسنس ہے تو آ کر ٹیسٹ دیں۔ اب بتائیں میں اور میرے شوہر لائسنس کیسے حاصل کریں؟ اب آپ ہی کچھ مدد کریں کیونکہ ڈرائیونگ ٹیسٹ کا نظام بہت زیادہ پرانا ہے۔‘
ایک سمندر پار پاکستانی نے تجویز دی کہ ’جو لوگ بھی پانی، بجلی اور ٹیلی فون کے بل نہیں دیتے ان کے شناختی کارڈ بلاک کر دیے جائیں۔ اس طرح نادہندہ لوگ نہ باہر جا سکیں اور نہ کچھ اور کر سکیں گے۔ مجبوراً انہیں بل ادا کرنا ہی پڑے گا۔‘
سٹیزن پورٹل پر کی جانے والی شکایات کے بارے میں عموماً یہ شکایت بھی ملتی ہے کہ متعلقہ محکمے کے افسران بغیر کسی کارروائی کے مسئلے کو حل شدہ قرار دے کر بند کر دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے وزیر اعظم نے کچھ عرصہ قبل ہزاروں شکایات دوبارہ کھولنے کے احکامات دیے تھے۔ اسی طرح سے پورٹل پر ایک شہری کی شکایت بند کر دی گئی تو انھوں نے غصے میں ردعمل دیا۔ 
انہوں نے لکھا کہ ’میں جانتا ہوں کہ آپ میری شکایت کیوں بند کر رہے ہیں، کیونکہ میں نے جن کے بارے میں شکایت کی تھی آپ کے افسران کے ان سے ذاتی تعلقات ہیں۔ اب میں اپنا حق اپنے طریقے سے حاصل کروں گا۔ میں سیدھے طریقے سے اپنا حق اور انصاف حاصل نہیں کر سکا۔ پاکستان میں انصاف کا نظام بہت ہی کمزور ہے۔‘

شیئر: