Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عید پر والدین سعودی عرب، بچے اسلام آباد کے ہوسٹلز میں

پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات اس قدر تاریخی اور گہرے ہیں کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ پاکستانی بسلسلہ روزگار سعودی عرب میں مقیم ہیں جن کی تعداد 26 لاکھ سے زائد ہے۔
ان میں ہزاروں ایسے ہیں جو اپنے خاندان اور بیوی بچوں سمیت وہاں مقیم بلکہ ان کے بچوں کی پیدائش بھی سعودی عرب میں ہی ہوئی ہے۔
ان پاکستانیوں کے بچے عموماً پاکستان کے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور موقع ملنے پر تعلیم حاصل کرنے کے لیے پاکستان بھی آتے ہیں اور پاکستان کی مختلف جامعات اور پیشہ وارانہ تعلیم کے اداروں میں داخلہ لیتے ہیں۔

 

یہ طالب علم سعودی عرب میں مقیم والدین سے ملنے کے لیے عموما سمیسٹر کی تکمیل یا پھر چھٹیوں کے دوران سعودی عرب جاتے ہیں۔
راواں برس کورونا کی عالمی وبا کے سبب سفری پابندیوں کے باعث یہ طالب علم تعلیمی ادارے بند ہونے کے باوجود اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے پاس نہیں جا سکے اور مسلسل دوسری عید بھی انھیں جامعات  یا نجی ہاسٹلز یا پھر کسی رشتہ دار کے ہاں گزارنا پڑ رہی ہے۔
اسلام آباد کی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، قائد اعظم یونیورسٹی، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے علاوہ ملک کے دیگر شہروں میں بھی سعودیہ میں مقیم پاکستانیوں کے بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور موجودہ صورت حال میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔
اردو نیوز سے گفتگو میں پاکستان میں پھنسے طالب علموں کا کہنا ہے کہ وہ عید کے موقع پر اپنے والدین اور بہن بھائیوں سے دور رہ کر اداس ہیں۔ واپس سعودی عرب جانا چاہتے ہیں لیکن سعودی عرب میں پروازوں کو مسافر لے کر جانے کی اجازت نہیں اس لیے واپسی بھی ممکن نظر نہیں آ رہی۔
حنا مسعود بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں ایم ایس مینجمنٹ سائنسز کی طالبہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 'پروازیں بند ہونے کی وجہ سے واپسی ممکن نہیں ہوئی۔ پانچ ماہ سے ایک طرح سے قرنطینہ میں رہ رہے ہیں۔ میں دو سال سے مقیم ہوں اور ہر چھ ماہ بعد واپس سعودی عرب جاتی ہوں لیکن اس دفعہ ممکن نہیں ہوسکا۔ ہم نے کوشش بھی کی لیکن کامیابی نہیں ہوئی۔'

پاکستان میں پھنسے طالب علموں کا کہنا ہے کہ وہ عید کے موقع پر اپنے والدین اور بہن بھائیوں سے دور رہ کر اداس ہیں (فوٹو: ٹوئٹر)

انھوں نے کہا کہ اب تو دوسرے ممالک کی پروازیں کھل جانے کے باعث دیگر ممالک کی طالبات واپس جا چکی ہیں اور صرف سعودی عرب سے تعلق رکھنے والی طالبات ہی موجود ہیں۔ والدین بھی اپنی کمپنی کے ذریعے ٹکٹ کی بکنگ کی کوشش کر رہے ہیں۔'
ایک اور طالبہ منال احمد کا کہنا ہے کہ 'یہ دوسری عید ہے جو زندگی میں والدین کے بغیر گزارنا پڑ رہی ہے۔ منتظر ہیں کہ پروازیں کھلیں اور واپس جائیں۔ میں نے اپنی پوری فیملی بہن بھائی امی ابو سب کو مس کیا ہے۔ اب جب واپس جائیں گے تو ایک دو مہینے ضرور رہ کر ہی واپس آئیں گے۔
طالبہ مریم نے کہا کہ میرے والد 25 سال سے سعودی عرب میں مقیم ہے اور میری پیدائش بھی وہیں ہوئی ہے۔ ہاسٹل میں سہولیات کے باوجود بور ہو جاتے ہیں۔ آن لائن کلاسز کے علاوہ کوئی سرگرمی ہی نہیں ہوتی۔'
انھوں نے کہا کہ 'عید کے دن فیملی کی یاد بہت زیادہ آتی ہے۔ اس کیفیت سے نکلنے کے لیے دوست مل کر کچھ نہ کچھ کر ہی لیتے ہیں لیکن گھر والوں کی اتنی یاد آتی ہے کہ کچھ کرنے کو دل نہیں چاہتا۔ عید کے دن ہم لوگ کلیجی کا ناشتہ کرتے ہیں اور سب بہن بھائل مل کر قربانی کے گوشت کے پیکٹ بنا کر تقسیم کرتے ہیں وہ سب یاد آئے گا۔ اب تو فیملی والوں کو بھی ہماری یاد ستا رہی ہے۔'

ابتسام کے مطابق گزشتہ عیدالفطر پہلی عید تھی جو گھر سے  باہر گزارا۔ (فوٹو: فیس بک)

ابتسام محمد یوسف کا تعلق کراچی سے لیکن ان کے والدین اور ننھیال طویل عرصے سے سعودی عرب میں مقیم ہیں ان کی پیدائش بھی سعودی عرب میں ہوئی۔
ان کا کہنا ہے کہ ابتدا میں جب سعودی عرب نے 72 گھنٹے میں واپسی کا موقع دیا تھا اس وقت واپس جانے کی کوشش کی تھی لیکن مجھے ٹکٹ نہیں ملا تھا۔ جس کے بعد عید گزارنا مشکل تھا کیونکہ وہ پہلی عید تھی۔ اب دوسری ہے تو وہ بھی گزر ہی جائے گی۔
ہاسٹل کے علاوہ وہ طالب علم جن کی یونیورسٹیاں بند ہونے کے ساتھ ساتھ ہاسٹلز بند کر دیے گئے تھے وہ مجبوراً نجی ہاسٹلز یا پھر رشتہ داروں یا دوستوں کے ساتھ رہنے پر مجبور ہیں۔
ایسے ہی ایک طالب علم حذیفہ محمود نے اردو نیوز کو بتایا کہ 'اپنے ہاسٹل میں رہنا نسبتاً آسان تھا کہ وہاں آپ کے جاننے والوں کی ایک بڑی تعداد رہتی ہے۔ لیکن نجی طور پررہائش اختیار کرنا اوپر سے لاک ڈاون اور کورونا کا خطرہ اور پھر گھر والوں سے بھی دوری نے بہت پریشان کیا۔ عید کا دن بھی ایسے ہی گزر جاتے ہے جیسے کوئی عام دن ہو۔‘

شیئر:

متعلقہ خبریں