Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آئس سکیٹنگ: سعودی لڑکی اولمپکس میں شرکت کے لیے پرعزم

ملک الشائع نے پہلی بار آئس سکیٹنگ اپنی دوست کی سالگرہ کے موقع پر کی۔ (فوٹو: عرب نیوز)
تین سال قبل ایک دوست کی سالگرہ کے موقع پر آئس سکیٹنگ شروع کرنے والی سعودی لڑکی کا اب خواب ہے کہ وہ اولمپکس میں حصہ لے۔
عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے 13 سالہ ملک الشائع کا کہنا تھا کہ تین سال پہلے انہوں نے اپنی دوست کی سالگرہ کے موقع پر آئس سکیٹنگ شروع کی تھی اور اسی وقت انہیں اس کھیل سے بہت لگاؤ ہوگیا تھا۔
'جب میری والدہ نے اس کھیل کے لیے میرا لگاؤ دیکھا تو انہوں نے مجھے آئس سکیٹنگ کی کلاس میں داخل کروایا۔ میں نے (وہاں) روز جانا شروع کردیا۔'
ان کا کہنا تھا کہ ان کی والدہ نے اس کھیل میں آگے بڑھنے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کی۔
'اس دن سالگرہ کی دعوت پر میری والدہ اور کوچ کا کہنا تھا کہ میں قدرتی طور پر سب کر رہی تھی کیونکہ میں نے بس (آئس سکیٹنگ کرنا) شروع کردیا۔'
مارچ میں ہونے والے ہیوسٹن انوی ٹیشنل 2020 میں وہ چوتھے نمبر پر آئیں اور ان کا کہنا ہے کہ پہلے نمبر پر آنے کے لیے وہ اور محنت کریں گی۔
وہ روس کی آئس سکیٹرز الینا ریڈیونووا اور ایلکسزینڈرا ٹروسووا کی طرح بننے کی خواہش رکھتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ برف پر چلنا (گلائڈ کرنا) ایک جادو کا سا احساس دیتا ہے۔
ان کو علم ہے کہ آئس سکیٹنگ سعودی عرب میں زیادہ مشہور نہیں لیکن وہ ان لوگوں کی حواصلہ افزائی کرتی ہیں جو اس میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔
ان کا ماننا ہے کہ کسی بھی چیز کے لیے محنت کی جائے تو وہ حاصل ہو جاتی ہے۔  انہیں سوشل میڈیا پر اپنے آئس سکیٹنگ کے شوق کی وجہ سے بہت پزیرائی ملی ہے۔
ان کی والدہ ایمان الدماغ کا کہنا تھا کہ سالگرہ والے دن ان کی بیٹی نے پہلی مرتبہ آئس سکیٹنگ کی تھی اور اس دن کے بعد ان کے بچے انہیں روزانہ آئس سکیٹنگ پر لے جانے کا کہتے ہیں۔

ملک الشائع روسی آئس سکیٹر الینا ریڈیونووا کی جیسی نفاست سے یہ کھیل کھیلنا چاہتی ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

ان کا کہنا تھا کہ ’میری بیٹی کا تعلق ایک ایسی جگہ سے ہے جہاں آئس سکیٹنگ کے لیے زیادہ سہولیات نہیں لیکن پھر بھی وہ قدرتی طور پر اس کھیل کو سمجھتی ہے۔‘
'اس نے بہت چھوٹی عمر میں اسے شروع کیا تھا۔ ہم قسیم میں رہتے تھے جہاں آئس سکیٹنگ کی کوئی جگہ نہیں تھی۔'
ان کا کہنا تھا کہ آئس سکیٹنگ کی رنک میں قدم رکھتے ہی ان کی بیٹی اس نفاست سے گلائیڈ کیا کہ وہ حیران ہوگئیں۔ 'وہ بلکل ہچکچائی نہیں نہ ہی ڈری، اور میں وہاں سوچ رہی تھی کہ برف پر کیا ہوگا 
ملک الشائع کی والدہ کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی میں ہر وہ خوبی ہے جو اس کھیل کے لیے ضوری ہے۔
ان کے کوچ نے ان کی والدہ کو بتایا کہ جو ملک الشائع قدرتی طور پر کر سکتی ہے وہ انہیں اپنے شاگردوں کو سکھانے میں سالوں لگ جاتے ہیں۔

شیئر: