Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خواتین اینکرز: ’ڈیئر ٹرولز، حملے خاموش نہیں کرا سکتے‘

خواتین نے انٹرنیٹ پر ہراساں کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے (فوٹو اے ایف پی)
پاکستانی میڈیا سے تعلق رکھنے والی کچھ خواتین نے ایک مشترکہ بیان میں حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ خواتین کو ہدف بنانے والی حکومتی شخصیات کو ایسا کرنے سے روکا جائے۔
دو صفحوں پر مشتمل شکایتوں بھرے خط میں کہا گیا ہے کہ تمام پارٹیوں کے ممبران، سپورٹرز اور فالوورز کو کہا جائے کہ وہ خواتین صحافیوں اور مبصرین پر براہ راست یا باالواسطہ حملوں سے اجتناب کریں۔
سولہ خواتین اینکرز، تجزیہ کاروں اور ڈیجیٹل میڈیا پر فعال خواتین کے ناموں سے جاری ہونے والے خط میں سینیٹ اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں سے بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ معاملے کا نوٹس لیں اور حکومت کا احتساب کریں تاکہ وہ معاملے کو تسلیم کرے، معافی مانگے اور دھمکیوں بھرے ماحول کو ختم کرنے کے لیے کردار ادا کرے۔

’حملے ہمیں خاموش نہیں کر سکتے‘ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ سوشل میڈیا پر گفتگو کرتے ہوئے خواتین مبصرین اور ٹیلی ویژن میزبانوں کا کہنا تھا کہ ’میڈیا کی خواتین خصوصا جو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ہیں اب ان مقامات پر آزادانہ گفتگو کو خاصا مشکل پاتی ہیں۔ بہت سی خواتین اب سیلف سنسر کرتے ہوئے معلومات شیئر کرنے اور مختلف امور پر اپنی رائے دینے سے اجتناب کرتی ہیں‘۔
ٹی وی میزبان عاصمہ شیرازی گفتگو کا حصہ بنیں تو لکھا ’میں صحافی ہوں اور صحافت جرم نہیں‘۔
 

شعبہ قانون سے تعلق رکھنے والی ٹی وی مبصر ریما عمر نے اپنی ٹویٹ میں خواتین اینکرز و مبصرین کے خط میں لکھے ایک مطالبے کا ذکر کیا تو لکھا ’حکومت اپنے نمائندوں کو خواتین صحافیوں اور مبصرین کو ہدف بنانے سے روکے‘۔
 

خط کی صورت میں مشترکہ بیان سامنے آنے کے بعد جہاں میڈیا اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے خواتین اینکرز کے مطالبے کی حمایت کی وہیں سیاسی صفوں سے بھی ان کے حق میں آواز بلند کی گئی۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے سربراہ اور پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے خواتین اینکرز کو آن لائن ہراساں کئے جانے کا نوٹس لیتے ہوئے خواتین صحافی و اینکرز کو بریفنگ کے لئے طلب کرلیا۔
مشترکہ شکایت کرنے والی خواتین میں شامل آئمہ کھوسہ نے ہیش ٹیگ پر جاری گفتگو میں حصہ لیا تو ٹرولز کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ ’حملے ہمیں خاموش نہیں کر سکتے‘،

مختلف افراد کی جانب سے خواتین اینکرز اور مبصرین کے مطالبات کی حمایت کرتے ہوئے ان کے مطالبات کے حق میں بات کی گئی تو کچھ سوشل میڈیا صارفین تصویر کا دوسرا رخ دکھانے پر مصر رہے۔

شکایت کرنے والی خواتین اینکرز اور مبصرین کی گزشتہ ٹویٹس کے سکرین شاٹس شیئر کرتے ہوئے متعدد صارفین نے ان میں گالیوں، نامناسب گفتگو اور دعووں کی موجودگی کو ٹرولنگ کا ایک سبب قرار دیا۔
گزشتہ کچھ عرصے کے دوران پاکستان میں انٹرنیٹ تک رسائی بڑھنے باالخصوص تھری جی اور فور جی ٹیکنالوجی عام ہونے کے بعد سوشل میڈیا ایکٹوازم میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔ سیاست سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد اس ایکٹوازم کے دوران اپنی حمایت کرنے والی نمایاں شخصیات کی تعریف اور مخالفت کرنے والوں کے خلاف تنقید چلاتے رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر چلائی جانے والی ان تعریفی و تنقیدی مہمات کے دوران میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد کو نشانہ بنانے والے جہاں ان کے کاموں اور بیانات میں تضاد کی نشاندہی کرتے ہیں وہیں معاملہ گالم گلوچ اور ذاتیات تک بھی پہنچ جاتا ہے۔
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: