Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹائیگر ابھی زندہ ہے

چیف جسٹس بوبڈے کی تصویر پر تبصرہ کرنے پر توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا گیا۔ فوٹو ٹوئٹر
گذشتہ ہفتے تک ہم یہ ہی سمجھتے تھے کہ اب انصاف صرف ٹی وی چینل ہی کرتے ہیں، وہ جج بھی ہیں، جیوری بھی اور استغاثہ بھی اور یہ صحیح بھی ہے کیونکہ جب تینوں کام ایک ہی شخص یا ادارہ کر رہا ہو تو کوآرڈینیشن بہت آسان ہو جاتا ہے۔ ویسے بھی یہ ملٹی ٹاسکنگ کا زمانہ ہے، کوئی بڑی خبر ہوئی تو اس کی تفصیلات بتا دیں اور باقی وقت میں فٹافٹ مقدمات نمٹا دیے۔
اور ہم یہ بھی سمجھتے تھے، اور اب معلوم ہوا کہ غلط سمجھتے تھے، کہ یہ کام انہیں خود عدالتوں نے آؤٹ سورس کر دیا ہے کیونکہ ریگولر عدالتوں میں کروڑوں مقدمات پہلے سے زیر التوا ہیں، انصاف کے انتظار میں لوگوں کی زندگیاں گزر جاتی ہیں لیکن انتظار ختم نہیں ہوتا، اس لیے قابل احترام عدالتوں نے سوچا ہوگا کہ ہائی پروفائل کیسز، اور خاص طور پر ایسے مقدمات جن سے تھوڑا بہت گلیمر بھی جڑا ہوا ہو، ٹی وی چینلوں کے سپرد کر دیے جائیں، اور پرانے بورنگ مقدمات عدالتیں نپٹاتی رہیں۔
اور ٹی وی چینل بھی شاید یہ ہی سمجھ رہے تھے اور اس لیے ’میگی‘ کے ’ٹو منٹ نوڈلز‘ کی طرح جھٹ پٹ انصاف بانٹ رہے تھے۔
کتنا غلط سمجھتے تھے ہم اور وہ۔ اگر یہ سلمان خان کی فلم ہوتی تو سلمان اپنے جالی دار بنیان میں سکرین پر نمودار ہوتے اور آپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتے کہ میرے انتقال کی خبریں بہت بڑھا چڑھا کر پیش کی گئی ہیں، لیکن ٹائیگر ابھی زندہ ہے۔
ٹائیگر واقعی زندہ ہے اور اگر ٹائیگر زندہ ہو اور آس پاس ہی کہیں ہو تو آپ کو کیا کرنا چاہیے؟ بات کو مذاق میں اڑانا ہو تو جواب یہ ہے کہ ہمیں کیا کرنا ہے، جو کرے گا ٹائیگر ہی کرے گا۔ لیکن صحیح جواب یہ ہے کہ اگر آپ اور کچھ نہیں کرسکتے تو کم سے کم ڈر تو سکتے ہیں۔
چاہیں تو پرشانت بھوشن سے پوچھ لیجیے۔ وہ سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل ہیں، 30 سال سے عدالت عظمیٰ میں پریکٹس کرتے ہیں اور انہوں نے اپنے کیریئر کا بڑا حصہ بدعنوانی کے خلاف لڑتے ہوئے او مفاد عامہ کی مقدمے بازی میں گزارا ہے۔

انڈین عدالت نے وکیل پرشانت بھوشن کو توہین عدالت کا مرتکب ٹھہرا دیا۔ فوٹو اے ایف پی

انڈیا میں شہری اور انسانی حقوق کے لیے لڑنے والوں کی فہرست آجکل بہت لمبی نہیں ہے، اور چونکہ ٹی وی چینلوں کا ذکر کر چکے ہیں تو یہ بھی بتاتے چلیں کہ اس فہرست میں ان کا نام شامل نہیں ہے، لیکن پرشانت بھوشن کا ہے۔ یہ سب سن کر آپ کو لگے گا کہ ایسے انسان کی تو قدر ہونی چاہیے لیکن آجکل یہ خوبیاں تھوڑی اولڈ فیشن ہوگئی ہیں۔
وہ دو ٹوک بات کرتے ہیں اور بات کرنے کا یہ سٹائل بہت سے لوگوں کو پسند نہیں آتا۔ وہ سپریم کورٹ کے فیصلوں اور اس کے کام کاج کے طریقے پر تنقید کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ جو لوگ اس راستے سے پہلے گزر چکے ہیں انہیں معلوم ہوگا کہ یہ آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے۔
کورونا وائرس کی وجہ سے سپریم کورٹ نے مہینوں سے عدالتوں میں مقدمات کی شنوائی بند کر رکھی ہے، کیسز سنے تو جا رہے ہیں لیکن آن لائن۔ اور ایسے میں ایک دن اخبارات میں ایک تصویر شائع ہوئی جس میں چیف جسٹس ایک مہنگی امپورٹڈ موٹر سائیکل پر بیٹھے ہوئے نظر آر ہے ہیں۔ وہ کسی تقریب میں شرکت کرنے گئے تھے اور یہ موٹرسائیکل بظاہر بی جے پی کے کسی رہنما کے بیٹے کی تھی۔ انہیں موٹر سائیکلوں کا شوق ہے۔
تصویر وائرل ہوگئی اور اس بارے میں ٹوئٹر پر بھوشن نے بھی اپنی رائے ظاہر کر دی۔ انہوں نے کیا کہا یہ نہیں بتا سکتے، اتنا ضرور کہہ سکتے ہیں کہ عدالت کو ان کی بات زیادہ پسند نہیں آئی، اس نے از خود نوٹس لیا اور ایک مہینے کے اندر پرشانت بھوشن کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دے دیا۔

انڈیا میں توہین عدالت کے قانون پر تنقید کی جا رہی ہے۔ فوٹو اے ایف پی

انڈیا میں مبصر شاید پہلی مرتبہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر اتنا کھل کر تنقید کر رہے ہیں۔ زیادہ تر کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کو تنقید برداشت کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے اور اس کے اس فیصلے سے یہ پیغام جائے گا کہ عدالت کے خلاف کوئی کچھ نہ بولے۔ پرشانت بھوشن کو اب جلدی ہی سزا سنائی جائے گی اور وہ چھ مہینے تک کے لیے جیل جا سکتے ہیں۔
عدالت کا فیصلہ صحیح ہے یا غلط ہمیں نہیں معلوم کیونکہ شہری حقوق کے لیے آواز اٹھانے والوں کی فہرست میں ہمارا نام بھی شامل نہیں ہے، اور ویسے بھی آجکل گرمی بہت ہے اور انڈیا کی جیلوں کا حال تو آپ کو معلوم ہی ہے. وجے مالیا سے پوچھ لیجیے، وہ مبینہ طور پر ہزاروں کروڑ کا گھپلہ کرکے انگلینڈ بھاگ گئے تھے اور کسی قیمت واپس آنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
برطانوی عدالتوں سے انہوں نے کہا کہ وہ واپس نہیں جاسکتے کیونکہ انڈیا کی جیلوں کی حالت ایسی نہیں ہے کہ ان میں رہا جاسکے۔ ان کے خوف کا یہ عالم ہے کہ وہ پوری کی پوری رقم لوٹانے کے لیے تیار ہیں اور ٹوئٹر پر اس کی پیش کش بھی کر چکے ہیں۔ تو ہم کس گنتی میں آتے ہیں۔
لیکن اس کیس کا ایک مثبت پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ عدالتیں چاہیں تو پلک جھپکتے ہی مقدمات کو انجام تک پہنچا سکتی ہیں۔
اخبارات بھی سپریم کورٹ کے فیصلےسے ناخوش ہیں۔ ان کا بنیادی پوائنٹ یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ نے کئی ایسے کیسز سننے میں کوئی جلدی نہیں دکھائی جن سے لاکھوں لوگوں کی زندگیاں متاثر ہو رہی ہیں۔ مثال کے طور پر کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کیے جانے کے خلاف مقدمات، یا وہاں سیاسی رہنماؤں کی گرفتاریوں کے خلاف پٹیشن۔۔۔ یہ فہرست بھی لمبی ہے، تو پرشات بھوشن کے کمنٹس پر عدالت اتنی چراغ پا کیوں ہے اور اسے کیوں لگتا ہے کہ دو ٹوئیٹس سے انصاف کے مندر کی بنیادیں ہل گئی ہیں اور جمہوریت خطرے میں پڑ گئی ہے؟

برطانیہ میں توہین عدالت کا قانون ختم کر دیا گیا ہے۔ فوٹو روئٹرز

یہ بحث ان لوگوں کے لیے چھوڑ دیتے ہیں جنہیں قانون کی زیادہ سمجھ ہے, یا جو جیل جانے سے نہیں ڈرتے۔ لیکن ڈرتے ڈراتے یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ پرشانت بھوشن نے ایسا کچھ نہیں کہا جو بہت سے دوسرے لوگ بہت مرتبہ دوسرے پلیٹ فارمز پر پہلے نہ کہہ چکے ہوں۔
خود عدالت عظمیٰ کے چار سینیئر ججز نے جنوری 2018 میں ایک غیر معمولی پریس کانفرنس کرکے اس وقت کے چیف جسٹس کے کام کرنے کے طریقے پر سخت تنقید کی تھی لیکن اس وقت کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی۔
لیکن ایک قصہ آپ کو ضرور بتاتے چلیں۔ 1987 میں برطانیہ کے ہاؤس آف لارڈز (سپریم کورٹ) نے ’سپائی کیچر‘ کیس کے نام سے مشہور ایک مقدمے میں اپنا فیصلہ سنایا۔
وہاں کے ایک اخبار ’ڈیلی مرر‘ نے عدالت کو آئینہ دکھانے کی کوشش کرتے ہوئے تین جج حضرات کی تصاویر الٹی شائع کیں اور کیپشن دیا: یو اولڈ فولز (بوڑھے احمق)۔
جج لارڈ ٹیمپل مین نے یہ کہہ کر توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے سے انکار کردیا کہ وہ واقعی بوڑھے ہیں اور جہاں تک ان کے احمق ہونے کا سوال ہے تو یہ ’پرسیپشن‘ یا نظریے کا سوال ہے، ان کی اپنی رائے یہ ہے کہ وہ احمق نہیں ہیں۔ انگلینڈ میں اب توہین عدالت کا قانون ہی ختم کر دیا گیا ہے۔
امریکی سپریم کورٹ کے جج ہیوگو بلیک نے1941میں کہا تھا کہ لوگوں کو زبردستی خاموش کرنے سے عزت و احترام میں اضافہ ہونے کے بجائے شک و شبہات میں اضافہ ہوتا ہے۔

امریکی جج نے کہا تھا کہ لوگوں کو خاموش کرانے سے شک و شہبات بڑھتے ہیں۔ فوٹو ہسٹری

اب ملک کے تقریباً پندرہ سو وکلا نے بھی سپریم کورٹ کو خط لکھ کر کم و بیش یہی بات کہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ پیغام کورٹ تک پہنچ جائے اور عدالت اگلی سماعت میں یہ کہہ کر کیس ختم کر دے کہ سوشل میڈیا پر کون کیا کہہ رہا ہے اس کی پہرے داری کرنا ہمارا کام نہیں ہے، نہ ہمارے پاس ضائع کرنے کے لیے انتا وقت ہے اور نہ ہم یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہمارے قول و فعل پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ 
پرشانت بھوشن جیل جائیں گے یا نہیں دو تین دن میں معلوم ہو جائےگا۔
ہاں، آپ کو یہ بتاتے چلیں کہ یہ بات امریکی مصنف مارک ٹوئین نے کہی تھی کہ میرے مرنے کی خبریں بہت بڑھا چڑھا کر پیش کی گئی ہیں۔ ہوا یہ تھا کہ ان کی زندگی میں ہی ان کی اوبیچوئری (ذکر رحلت) شائع کر دی گئی تھی۔
مارک ٹوئین سے ہی ایک اور بات منصوب کی جاتی ہے: خاموش رہ کر احمق نظر آنا اس بات سے کہیں بہتر ہے کہ بول کر(احمق ہونے کے بارے میں) تمام شبہات ختم کردیا جائے۔
اس لیے آج ہم خاموش ہی رہیں گے۔

شیئر: