Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قطری شاہی خاندان کے ایک سینیئر رکن کی اہلیہ انصاف کی منتظر

شیخ طلال کے اہل خانہ جرمنی میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ (فوٹو عرب نیوز)
قطری شاہی خاندان کے ایک سینیئر رکن شیخ طلال الثانی کو فروری 2013 سے قطری حکام نے قید کر رکھا ہے جس میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی بھی ہو رہی ہے۔
عرب نیوز کے مطابق اس دوران صرف دو مرتبہ انہیں اپنی بیوی بچوں سے ملنے کی اجازت دی گئی۔ شیخ طلال ثانی کے اہل خانہ اس وقت جرمنی میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔  

ہمارے چار بچے العنود ، الجواہرہ ، عبد اللہ اور احمد ہیں۔(فوٹو ٹوئٹر)

شیخ طلال ثانی قطر کے سابق امیر شیخ احمد بن علی الثانی کے پوتے ہیں جن کا  دورِ اقتدار 1960سے 1972 تک رہا۔
شیخ احمد بن علی کو ان کے کزن شیخ خلیفہ بن حمد نے معزول کیا تھا۔
قطر کے موجودہ امیر تمیم بن حمد کے دادا اور سابق امیر حمد بن خلیفہ کے والد ہیں۔
قطر کے بانی شیخ عبدالعزیز بن احمد کی 2008 میں سعودی عرب میں جلاوطنی کےدوران وفات کے بعد اس خاندان کے افراد کے مابین تناؤ بڑھ گیا تھا۔
اس کے فورا بعد ہی شیخ طلال ثانی کے اثاثے منجمد کر دیے گئے تھے جو ان کے والد کی وفات کے بعد انہیں وراثت میں ملنے والے تھے۔
شیخ طلال کی گرفتاری عدالتی حکم کے بغیر ہوئی ہے اور انہیں قانونی نمائندگی، اہل خانہ سے ملنے کی اجازت اور طبی سہولتیں نہیں دی جا رہیں۔

شیخ طلال کے اثاثے منجمد کردیئے گئے تھےجو وراثت میں ملنے تھے۔(فوٹو عرب نیوز)

مئی 2018 میں شیخ طلال کو قطری عدالت نے 22 سال سے زیادہ کی سزا سنائی تھی جس کے بعد سے وہ جیل میں ہیں۔
جیل میں ان کے ساتھ برتاؤ قطر کے شہری اور سیاسی حقوق سے متعلق بین الاقوامی طور پر دی جانے والی سہولتوں کے منافی ہے۔
اس کے علاوہ شیخ طلال کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آزاد عدالت کے ذریعے ان کے کیس کا جائزہ بھی نہیں لیا گیا۔
جیسے خراب حالات میں انھیں جیل میں رکھا گیا ہے شیخ طلال ثانی اب ذیابیطس، دانت جھڑنے ، ہائی بلڈ پریشر، کمر اور جوڑوں میں درد کےعارضے میں مبتلا ہیں جس کے باعث اب چلنے پھرنے میں دقت محسوس کرتے ہیں۔
انہیں ہسپتال منتقل کرنے کی ضرورت ہے لیکن طبی سہولیات دینے کے بجائے انہیں ابھی تک جیل میں ہی رکھا ہوا ہے۔

اقوام متحدہ نےاعلی ترین سطح پر چار اپیلوں کی توثیق کردی ہے۔(فوٹو عرب نیوز)

سرکاری طور پر دعوی کیا جاتا  ہے کہ 'قیدیوں کے لیے جیل میں صحت کی مفت سہولت موجود ہے۔' اس کے باوجود انکشاف ہوا تھا کہ قیدیوں کے لیے کورونا ٹیسٹ کرانے کی سہولت نہیں رکھی گئی۔
شیخ طلال ثانی سے2007 میں شادی کرنے والی اسماء اریان جو جرمنی میں مقیم ہیں، نے ان مشکل حالات میں انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے عرب نیوز سے گفتگو کی ہے جو سوال جواب کی صورت میں پیش خدمت ہے۔
س: کیا یہ سچ ہے کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں آپ کی اپیل قبول ہوگئی ہے؟
ج: جی یہ سچ ہے۔ ہم نےاقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں اب تک چار اپیلیں کی ہیں تا ہم کورونا وائرس کے پھیلاو کے باعث یہ تھوڑی دیر کے لیے تعطل کا شکار ہو گئی ہیں۔
قطر مسلسل یہ دعوی کرتا ہے کہ وہ انسانی حقوق سےمتعلق اپنے وعدوں کا احترام کرتا ہے۔ اقوام متحدہ نے میری اور بچوں کی طرف سے اعلی ترین سطح پر چار اپیلوں کی توثیق کردی ہے۔

مختصر رہائی دی گئی ایک ہفتے کے بعد دوبارہ  گرفتار کر لیا گیا۔(فوٹو عرب نیوز)

تین اپیلیں میرے شوہر کی نظربندی اور عدلیہ کی بدعنوانی کے لیے خصوصی کمیٹیوں کو پیش کی گئی ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارے نے فیصلہ لینا ہے اور ہم ان اداروں سے رابطے میں ہیں۔  ہمیں یقین دلایا  گیا ہے کہ 21 ستمبر تک اپیل سے متعلق امور کی وضاحت کردی جائے گی۔
س: اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل  سے آپ کی کیا توقعات ہیں؟
ج: ہماری خط و کتابت کے آغاز سے ہی اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کو یقین ہے کہ اس کیس کے ساتھ فراہم کردہ دستاویزات میں قطر کے مختلف علاقوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا ثبوت ہے۔
ان میں "قیدیوں کے علاج کے بنیادی اصولوں" کے چارٹر کی خلاف ورزی بھی شامل ہیں۔
شیخ طلال ثانی کو تشدد کا نشانہ بنانا، انہیں وکیل سے رابطہ کرنے سے روکنا اور کسی مناسب وجہ کے بغیر انہیں حراست میں رکھنے کے علاوہ بچوں کو والد سے ملنے سے روکنا اور مجھ سے رابطہ کرنے سے روکنا حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ شروع میں ہم نے شیخ طلال کی رہائی کے لیے  قطری حکومت سے بہت اپیلیں کیں جن کے دستاویزی ثبوت ہیں۔ ہم نے ان کی نظربندی کی وجہ جاننے کےلیے قطری جیلوں سے بات چیت کی تاہم کوئی جواب نہیں ملا۔
تاہم اس کے باعث  شیخ طلال کو مختصر رہائی دی گئی لیکن ایک ہفتے کے بعد دوبارہ  گرفتار کر لیا گیا۔

مجھے دفاع  کے لیے وکیل سے رابطہ کرنے سے منع کیا جا رہا ہے۔ (فوٹو ٹوئٹر)

اب امید ہے کہ اقوام متحدہ کی انسانی کونسل کے ذریعےاس مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں اس کیس کو اہمیت حاصل ہوگئی ہے۔
یہ مقدمہ جیتنا ممکن ہے کیونکہ یہ  انسانیت پر مبنی بچوں کے حقوق،، خواتین کے حقوق، قیدیوں کے حقوق اور جیل میں تشدد  پر مبنی ہے ہے یہ سیاسی نہیں۔
جوعام طور پر قطر کے انسانی حقوق کے معاہدوں کی توہین کا باعث ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ  بچوں کو  ان کے والد سے بات چیت کرنے سے منع کیا گیا ہے اور جب سے اقوام متحدہ میں  اپیل کی ہے اب مجھے دفاع کے لیے وکیل سے رابطہ کرنے سے منع کیا جا رہا ہے۔
میں نے اقوام متحدہ کی انسانی کونسل کو بتایا ہے کہ ایک ایسا ملک جو اپنے قوانین کا بھی احترام نہیں کرتا  اس سے توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ بین الاقوامی قوانین کا احترام کرے گا۔
س: شیخ طلال کو مختصرعرصے کے لئے رہائی کے بعد دوبارہ گرفتارکیا گیا تھا۔ ایسا کیوں ہوا؟
ج: قطر کا طرز عمل اس طرح ہے، اس پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ ہمیں نہیں معلوم کہ رہائی کے بعد انہیں کیوں جیل میں واپس دھکیل دیا گیا۔ اس طرز عمل سے قطری میں کبھی کوئی محفوظ نہیں رہ سکتا۔
انہیں رہا کیا گیا تھا لیکن نظربند رکھا گیا تھا  اور دوبارہ گرفتاری سے قبل آٹھ گھنٹے تک  گھر کا محاصرہ رکھا گیا۔ وہ ایک عرصے سے ہی گھر کی نگرانی کر رہے تھے تو پھر اس محاصرے کی کیا ضرورت تھی۔

انسانی حقوق کا  معاملہ صرف اس کیس کی حد تک ہی محدود نہیں۔(فوٹو ٹوئٹر)

اسماء اریان نے سوالیہ انداز میں کہا کہ کیا شیخ طلال کی گرفتاری کے بعد  ان سے  وہ نفسیاتی سلوک اور دھمکیاں کافی نہیں؟ کیا وہ مجھ سے اپنے شوہر اور میرے بچوں کے حقوق ترک کرنے کی توقع کر رہے ہیں؟ میں ایسا نہیں ہونے دوں گی اور میں ہار نہیں مانوں گی۔
انہوں نے قیدی کے سب سے بنیادی حق کا احترام نہیں کیا جو حق وکیل کے ساتھ بات چیت کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ میں ان سے بات کرنے پر کیسے راضی ہوسکتی ہوں؟
س: کیا  قطری حکام کی جانب سے آپ کو  پیچھے ہٹنے یا  بین الاقوامی تنظیموں سے اپیل ترک کرنے کا کہا گیا ؟
ج: یہ سب شیخ طلال ثانی کے خاندان کے دیگر افراد  کے ذریعے یا مجھ سے براہ راست حقوق کے دعوے کرنا بند کرنے کے پیغامات ملے ہیں لیکن خاموش رہنے کا کیا فائدہ؟
خاص کر چونکہ یہ انسانی حقوق کا  معاملہ صرف اس کیس کی حد تک ہی محدود نہیں۔
یہ معاملہ میری حد تک نہیں ہے اس کے باعث چار  بچے متاثر ہو رہے ہیں جو اپنے والد کو صرف  تصویروں کی حد تک جانتے ہیں۔

رہائی کے لئے قطری حکومت سے اپیلیں کیں جن کے دستاویزی ثبوت ہیں(فوٹو عرب نیوز)

س: شیخ طلال کے کتنے بچے ہیں؟
ج: ہمارے چار بچے العنود ، الجواہرہ ، عبد اللہ اور احمد ہیں۔ ہمارے بچے  اپنے ملک سے نقل مکانی کرنے اور  والد سے دور ہونے کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ  احمد کی پیدائش سے قبل ہی شیخ طلال جیل میں ہیں۔ اس کےعلاوہ بچے اپنے والد کی شفقت اور ان کے حقوق اور ان کے والد کے حقوق دونوں سے محروم ہیں۔
اسماء نے کہا کہ یہ ساری تکلیف قطر کےسابق امیرشیخ حمد بن خلیفہ الثانی کی وجہ سے ہوئی ہے۔ 
میں نےانسانی کونسل کو  بتایا ہے کہ جب تک یہ شخص دوحہ میں ہے شیخ طلال محفوظ نہیں۔
ممکن ہے کہ میں اقوام متحدہ میں کیس جیت جاؤں اور قطر پر فرد جرم عائد کی جائے تاہم  جب تک شیخ حمد قطر میں ہیں توقع نہیں کہ شیخ طلال کو رہا کیا جائےگا۔
س: شیخ طلال پرمقدمہ مالی نوعیت کا ہے۔ کیا یہ الزام سچ ہے، نظربندی کی اصل وجہ کیا ہے؟
ج: قطر نے قرض کی وجہ سے شیخ طلال کے خلاف مقدمہ دائر کیا جس کا نتیجہ ان کی اپنی کمپنیوں سے متعلق سیکیورٹی چیک سے ہوا۔ قانونی چارہ جوئی میں صرف مالی معاملے سے متعلق  1600 دستاویزات شامل تھیں۔
انہوں نے کہا کہ  اقوام متحدہ کی انسانی کونسل بھی حیرت میں ہے کہ  شیخ طلال کو  مالی معاملے پر جیل میں رکھا  گیا ہے نہ تو وہ قاتل ہیں اور نہ ہی کوئی اور خلاف ورزی کی ہے  اور انہیں 22 سال قید کی سزا  کا مستحق جرم کیا ہے۔
شیخ طلال کے خلاف جو رنجش ہے قید سے قبل انہوں نے اپنے حقوق اور  وراثت کا دعوی کیا تھا۔
قطری قانون اور بین الاقوامی قانون یہ نہیں کہتے  کہ قرض میں ڈوبے شخص کو  22 سال قید میں ڈالنا چاہیے۔ اس سے بھی بدتر یہ کہ  کسی وکیل سے رابطہ کرنے کا حق بھی نہ ہو۔

شیخ طلال کے خلاف فیصلہ اور ان کی قید  شیخ حمد کے دور میں ہوئی تھی۔(فوٹو عرب نیوز)

س: کیا آپ کے ساتھ مالی معاملہ حل کرنے کی کوشش کی گئی؟
ج: ہاں ، یہ ہوا۔ میں نے شیخ طلال کے والد شیخ عبد العزیز الثانی کی میراث سے متعلق چار مقدمات درج  کرائے۔ ان سے  ثابت ہوتا ہے کہ شیخ عبد العزیز کی بڑی وراثت  تھی  اور یہ کہ شیخ طلال کا حصہ کافی ہے۔
میں نے جج سے کہا کہ ان سب کے بدلے شیخ طلال کو رہا کیا جائے حتی کہ میں نے آخری گفتگو میں ان سے کہا سب کچھ لے لو  اور انہیں چھوڑ دو۔
شیخ طلال کو معمول کی زندگی گزارنے اور بچوں کو باپ کی شفقت سے محروم رکھنا آپ کا حق نہیں۔
س: شیخ طلال کب سے جیل میں ہیں؟
ج: شیخ حمد کے شیخ تمیم کے حق میں دستبردار ہونے سے قبل شیخ طلال 2013 سے جیل میں ہیں۔ اس کے علاوہ  شیخ طلال کے خلاف فیصلہ اور ان کی قید بھی شیخ حمد کے دور میں ہوئی تھی۔
ایک چیک کی وجہ سے انہیں جیل میں ڈال دیا گیا تھا کہ یہ چیک درست نہیں۔
حالانکہ  ایک مصری جج  حمد ال منشاوی نے شیخ طلال کی رہائی کا حکم دیا تھا لیکن ان کے فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ جج ابھی بھی قطر میں ہے یا نہیں۔
س: شیخ طلال کے بچے کتنی بار ان سے مل سکے؟
ج: ان کی بیٹی العنود سات سال میں  صرف دو  مرتبہ  والد سے ملنے والی جا سکی۔ دوسرے بچے تو اپنے والد کو  صرف تصویروں کے ذریعے جانتے ہیں۔
س: شیخ طلال کی صحت کیسی ہے؟
ج: ان کی نفسیاتی اور جسمانی حالت ٹھیک نہیں ۔ ان کی تصویر حاصل کی گئی تھی جس میں وہ بہت کمزور لگتے ہیں، میں نہیں چاہتی کہ یہ تصویر شائع کی جائے۔
س: کیا آپ توقع کرتی ہیں کہ  شیخ طلال کو رہا کیا جائے گا ؟
ج: مجھے اقوام متحدہ کی انسانی کونسل کے ذریعے فرد جرم کی توقع ہے لیکن مجھے توقع نہیں ہے کہ شیخ طلال کو  رہا کیا جائے گا تاہم یقین ہے کہ میں عالمی سطح پر قطری حکام کی جانب سے انسانی حقوق کی حیرت انگیز پامالیوں کو ثابت کر سکتی ہوں۔
س: کیا آپ اقوام متحدہ سےمزید اقدامات  کا  ارادہ رکھتی ہیں؟
ج: میں کسی بھی قانونی طریقہ کار کی پیروی کروں گی جو شیخ طلال اور ان کے بچوں کو ناانصافی سے بچانے کے لیے  ہو گا۔ میرا ارادہ  جرمنی کی عدلیہ کے سامنے قطر کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کا  ہے۔ اس سلسلے میں کچھ اقدامات شروع کردیے ہیں۔
اب میں جرمن پولیس کی حفاظت میں ہوں کیونکہ میں نے قطر اور اس کے میڈیا پر بہت سی خلاف ورزیوں کا الزام عائد کیا ہے۔
س:  قطرکی طرف سے آپ کو دھمکیاں ملی ہیں؟
ج: جب میں جنیوا میں لی کلب سوئس ڈی لا پریس (سوئس پریس کلب) میں تھی تو مجھے دھمکیاں مل تھیں۔ وہ باہر میرا انتظار کر رہے تھے اور لوگوں کو مجھے دھمکانے کے لیے بھیجا اور مجھ پر جاسوسی کا الزام لگایا۔
میں واقعی ان دھمکیوں سے ڈرتی ہوں۔ آپ سوچ  نہیں سکتے کہ میری نفسیاتی حالت کیا ہے جب میں نے اپنے شوہر اور بچوں کے حقوق کا دفاع جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔
س: انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کے لیے آپ کا کوئی پیغام ؟
ج: میں ان سے کہنا چاہتی ہوں کہ وہ میرے معاملے کو سنجیدگی سے لیں اور یاد رکھیں کہ قطر قانون سے بالاتر نہیں۔ اگر قطر بین الاقوامی انسانی حقوق کا احترام کرتا تو وہ قیدیوں کے حقوق کے چارٹر کا احترام کرتا۔
اگر قطر کا دعوی ہے کہ وہ انسانی حقوق کا احترام کرتا ہے تو اسے بچوں کے حقوق کا احترام کرنا چاہئے اور شیخ طلال کے بچوں کو  ہر ہفتے ایک یا دو مرتبہ بذریعہ ٹیلیفون اپنے والد سے رابطہ کرنے کی اجازت دیں۔
اس کے علاوہ  میں بین الاقوامی تنظیموں سے بھی مداخلت کرنے اور ان کے طریقہ کار کو متحرک کرنے کے لئے کہنا چاہتی ہوں کہ یہ ان کے لیے قیدی، بچے اور عورت کے حقوق کی بحالی کے لیے متحرک ہونے کا صحیح وقت ہے۔
مجھے امید ہے کہ شیخ طلال کی رہائی کے لیے قطر پر دباؤ  ڈالا جائے گا۔
 

شیئر: