Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

'15 خواتین صحافیوں کی نمائندگی کیسے؟'

انسانی حقوق کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں وزارت اطلاعات اور آئی ایس پی آر کے حکام کو بلانے کا فیصلہ کیا گیا۔ فوٹو: سوشل میڈیا
 پاکستان میں قومی اسمبلی کی انسانی حقوق کی قائمہ کمیٹی نے گذشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ہراساں کیے جانے کے خلاف خواتین صحافیوں کے بیان کا نوٹس لیتے ہوئے انھیں اجلاس میں مدعو کیا تھا جہاں انھوں نے اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات کے بارے میں تفصیلی بیانات ریکارڈ کروائے۔ 
کمیٹی کے اجلاس کی صدارت پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کی تھی۔
اس دوران خواتین صحافیوں نے مخصوص ٹویٹس اور واٹس ایپ میسجز میں دی جانے والی ناقابل اشاعت گالیوں کے بارے میں اجلاس کو اپنے ذاتی تجربات سے آگاہ کیا۔
اب ایک طرف قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے خواتین صحافیوں کے مسائل کے حل کے لیے اٹھائے جانے والے اس قدم کو سراہا جا رہا ہے تو دوسری جانب اجلاس میں چند  خواتین صحافیوں کو بلانے کے حوالے سے تنقید کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
اس شعبے سے وابستہ دیگر خواتین اینکر پرسنز کا موقف سامنے آیا ہے کہ چند خواتین سب کی ترجمانی نہیں کر سکتیں اس لیے سب کو اپنے ذاتی تجربات بتانے کا حق دینا چاہیے تھا۔
 اس حوالے سے مبشر لقمان کو انٹرویو دیتے ہوئے اینکر مہر بخاری نے کہا کہ ’جب آپ نے اس کا نام ’فیمیل جرنلسٹ آف پاکستان‘ رکھ دیا ہے تو یہ ایک بڑا موضوع بن جاتا ہے، انڈیا میں بھی اس پر بات شروع ہو جاتی ہے اور سفارتخانوں سے بھی فون آنے لگ جاتے ہیں کہ آپ کی کہانی میں کتنی صداقت ہے تو پھر اس میں سب کو شامل کرنا ضروری تھا، میرے نزدیک یہ زیادتی ہے۔ اس سے قبل ایک بڑی کال دینا چاہیے تھی تاکہ اس شعبے سے منسلک دیگر تمام خواتین بھی شرکت کرتیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ایک کمرے میں بیٹھ کر سب اپنی اپنی کہانی بیان کرتیں اور ایک جامع قسم کی قرارداد تیار ہوتی تاکہ وہ سیاسی اور ایجنڈے کے مطابق نہ لگتی۔ میری پوری ہمدردی اور احترام آپ کے ساتھ ہے لیکن بہتر ہوتا کہ آپ ماریہ میمن، فریحہ ادریس، جیسمین منظور اور کیمرے کے پیچھے رہ کر کام کرنے والے دیگر خواتین صحافیوں کو بھی بلاتیں۔
مہر بخاری نے مزید کہا کہ ان میں سے ایک دو خواتین نے یہ کہا کہ جمہوریت پسند خواتین صحافیوں کو زیادہ ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔ یہ بڑی غلط بات ہے، اگر کل میں کہوں کہ اس سے تو تاثر یہ بن رہا ہے کہ اصل میں جو غیر جانبدار ہیں انہیں آپ متعصب کہہ رہے ہیں اور جو متعصب ہیں انہیں آپ جمہوریت پسند کہہ رہے ہیں تو پھر یہ آپ کو بھی اچھا نہیں لگے گا۔
’اس دستاویز پر دستخط کرنے والی خواتین میں سے کچھ پچھلے 15 سال مجھے خود ٹرول کرتی آئی ہیں۔ سچ یہ ہے کہ اس ملک میں تمام ادارے ٹرول کرتے آئے ہیں، سیاسی جماعتیں ٹرول کرتی آئی ہیں حتیٰ کہ میرے اپنے شعبے کے آدمیوں اور خواتین نے ایسا ٹرول کیا ہے کہ آپ کو سمجھ ہی نہیں آتی کہ یہ ہوا کیا۔‘
ٹوئٹر ہینڈل ایڈورڈین نے اس حوالے سے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا ’مہر نے بالکل ایمانداری سے ٹوئٹر ٹرولنگ کے حوالے سے ٹھیک نشاندہی کی ہے کہ ٹرولنگ کا تعلق کسی ایک طبقے، ادارے یا جنس سے نہیں ہے بلکہ  یہاں سب رج کے ٹرول کرتے ہیں۔‘

ٹوئٹر صارف آدرش حمزہ نے لکھا کہ  ’یہی تو گندا رواج پڑ گیا ہے اس ملک میں. جس پر بھی سوال اٹھایا جاتا ہے وہ جمہوریت کے پردے میں چھپنے کی کوشش کرتا ہے‘

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ مردوں کے مسائل کو بھی اس میں شامل کرنا چاہیے جیسے ابھی علی ظفر کے ساتھ جو کیا جا رہا ہے۔‘
دیگر خواتین کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مہر بخاری نے کہا کہ ’ماریہ میمن کو پاکستان پیپلز پارٹی پچھلے مہینے سے ٹرول کر رہی ہے، فریحہ ادریس کو اتنے برے طریقے سے ٹرول کیا گیا ہے کہ انہیں مریم نواز سے رابطہ کرنا پڑا جس کے بعد 24 گھنٹوں میں وہ ٹرولنگ ختم ہو گئی۔‘

شیئر: