Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امن معاہدہ: ’امارات نے مشرق وسطیٰ کے مستقبل میں جرات مندانہ سرمایہ کاری کی‘

عرب امارات نے عرب دنیا میں پہلا پر امن جوہری ری ایکٹر بنایا ہے۔ فوٹو اے ایف پی
پاکستان میں متحدہ عرب امارات کے سفیر حمد عبید الزعابی کا کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین 13 اگست کو ہونے والا امن معاہدہ اپنے وقت اور مضمون كے لحاظ سے انتہائی اہمیت كا حامل ہے۔
اتوار کو جاری ایک بیان میں امارات کے سفیر کا کہنا تھا کہ ’سرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا فیصلہ کرتے ہوئے متحدہ عرب امارات نے مشرق وسطیٰ کے مستقبل میں جرات مندانہ سرمایہ کاری کی ہے۔‘
’ایک ایسے خطے میں جہاں سوچنے کے پرانے طریقے بدلنا مشکل ہوتا ہے، اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا فیصلہ کرتے ہوئے متحدہ عرب امارات نے مشرق وسطیٰ کے مستقبل میں جرات مندانہ سرمایہ کاری کی ہے، اور آنے والی نسلوں کے لیے امن و خوشحالی کی ضمانت کے لیے سابق مخالفین کے ساتھ مل کر کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔‘
حمد عبید الزعابی نے کہا کہ اگر ہم تاریخ کی طرف نظر دوڑائیں تو عرب ملكوں میں سے مصر اور اردن نے بالترتیب 1979 اور 1993 میں امن معاہدوں پر دستخط کیے۔
’اگرچہ اس رجحان میں شروع میں كوئی بڑی پیشرفت نہ ہوسكی۔ تاہم 57 ملكی اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے 28 ممبر ممالک پچھلے چند برسوں میں اسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ قطع تعلق كر كے احتجاج اور اعتراضات سے فیصلوں اور نقطہ نظر پر اثر انداز ہونے كی امید پر بیٹھے رہنے سے كہیں زیادہ اسرائیل كے ساتھ بات چیت اور مذاكرات کے ذریعے اس كے فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرنا بہتر ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ کوویڈ 19 کی وبا کے دوران بھی متحدہ عرب امارات نے مریخ ’امید‘ مشن کے آغاز سے لے کر عرب دنیا میں پہلا پر امن جوہری ری ایکٹر ’برکہ پاور پلانٹ‘ بنانے تک بہت سے اہم قومی منصوبوں كو آگے بڑھایا ہے۔
’ہم نے اسرائیل سمیت دیگر ممالک کے سائنسدانوں کے ساتھ تعاون کیا ہے تاکہ کوویڈ 19 سے بچاؤ كے لیے ویکسین کی تلاش میں تحقیق کو آگے بڑھائیں۔ اسی طرح پوپ فرانسس اور شیخ الازہر ڈاکٹر احمد الطیب کے مابین ’انسانی بھائی چارگی دستاویز‘ پر ابو ظہبی میں دستخط كا اہتمام كیا۔‘

عرب امارات نے عرب دنیا کا پہلا خلائی مشن مریخ پر بھیجنے کا آغاز کیا۔ فوٹو اے ایف پی

’کچھ لوگ ان کوششوں کا مقصد عملی سے زیادہ علامتی سمجھتے ہیں حالانكہ یہ قطعی طور پر عملی ہیں تاكہ نوجوانوں کو ترقی اور تربیت دے كر مستقبل کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کیا جا سکے۔‘
حمد عبید الزعابی نے کہا کہ ’پاکستان جس كی آبادی کا 64 فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے جبكہ متحدہ عرب امارات میں بھی آبادی كا یہی تناسب ہے۔ دونوں ممالک نوجوانوں کی شمولیت کی ضرورت سے آگاہ ہیں۔ ان كی شمولیت رواداری اور بقائے باہمی کا باعث ہوتی ہے جو كہ ایک مستحکم معاشرے کی بنیاد ہے۔ بغیر کسی شمولیتی مصروفیت کے نوجوان شدت پسندی کا شکار ہو سكتے ہیں۔‘
’آج کل کے نوجوان پرانے لوگوں اور نسلوں کی بنسبت زیادہ عملیت پسند ہیں۔ یہ جزوی طور پر تکنیکی اور معاشرتی اور معاشی اقدار میں تیز رفتار تبدیلیوں کی وجہ سے ہیں۔ نئی نسل تبدیلی كو جمود سے كم خطرناک اور مواقع سے بھرپور سمجھتے ہیں۔‘
 

متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین 13 اگست کو امن معاہدہ طے پایا۔ فوٹو روئٹرز

اماراتی سفیر کے مطابق متحدہ عرب امارات اپنی پالیسیوں کے نتیجے میں ان نوجوانوں کے لیے ترجیحی انتخاب بن گیا ہے جو اپنی صلاحیتوں كی پہچان اور اپنے کیریئر کو شروع کرنا چاہتے ہیں۔ ’آج 200 سے زائد ملكوں اور قومیتوں كے لوگ متحدہ عرب امارات میں امن، باہمی احترام اور وقار کے ساتھ رہائش پذیر ہیں۔‘
’یہ سب چیزیں مذاكرات اور بات چیت کی اہمیت کو واضح  کرتی ہیں۔ بحیثیت ذمہ دار ممالک  ہم اس خطے کو تشدد اور باہمی چپقلشوں كے حوالے نہیں كر سکتے۔ اور نہ ہی ہم اپنے نوجوانوں کو اس ترقیاتی عمل سے خارج کرنے کے متحمل ہوسکتے ہیں جو انسانی سرمائے اور خوشحالی کی تعمیر کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ معاشرے کی حیثیت سے ہم خود ایک بہت بڑی برائی کا مظاہرہ کرتے ہیں اگر ہم اس ترقیاتی عمل کے لیے بات چیت كے عمل کو مسترد کردیں اور نتائج دینے میں مسلسل ناكام عمل كو ترجیح دیں۔

عرب امارات کے پاکستان امدادی پروگرام کا آغاز جنوری 2011 میں کیا گیا۔ فوٹو اے ایف پی

’نئے حالات اور وقت اور پس وپیشِ منظر جو كہ ایک منصفانہ اور پائیدار حل كا تقاضہ كرتی ہیں، ہم امید کرتے ہیں کہ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں میں دو ریاستوں کے اصول کی بنا پر دونوں کے مابین ایک منصفانہ اور شفاف امن کے لیے کام کرنے کی ہمت ہے۔‘
حمد عبید الزعابی نے کہا کہ سرنگ کے آخری دہانے میں ہمیشہ روشنی ہوتی ہے۔ ’تبدیلی ہمیشہ نئے مواقع لاتی ہے، لیکن ان سے فائدہ اٹھانے کے لیے فرد كو تیار رہنا اور ان مواقع كو سمجھنے كے قابل ہونا، اور ان پر عمل کرنے كی ہمت ہونی چاہیے۔‘

شیئر: