Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’اکبری منڈی کا نام عمران خان رکھ دیں‘ 

پرانے لاہور میں سرکلر روڈ سے دہلی دروازے میں داخل ہوتے ہی مصالحوں کی خوشبو گھیر لیتی ہے۔ یہ خوشبو کئی خوشبوؤں کا مرقع ہے اور یہ فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ جس شے کی خوشبو محسوس ہو رہی ہے  یہ گرم مصالحہ ہے، جڑی بوٹیاں، دیسی مربّے یا اچار۔
درحقیقیت یہ خوشبو ان سبھی اشیا کی ہے جو یہاں منوں کے حساب ہر دکان پر دستیاب ہیں۔ یہ لاہور کی  تاریخی اکبری منڈی ہے۔ جو مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر نے سولہویں صدی میں قائم کی تھی۔
 برصغیر میں اناج کی سب سے پرانی مارکیٹ سمجھی جانے والی اکبری منڈی دہلی دروازے سے اکبری دروازے تک پھیلی ہوئی ہے۔ پانچ صدیوں کا سفر طے کرنے کے بعد زمانے کے مطابق اس میں کئی تبدیلیاں تو رونما ہوئی ہیں لیکن شہر لاہور میں یہ آج بھی اناج اور مصالحوں کا اسی طرح گڑھ ہے جیسے یہ اپنے قیام کے وقت بن گئی تھی۔

 

 ایشیا کی سب سے بڑی اناج اور مصالحہ مارکیٹ کہلانے والی اس منڈی کا قیام بادشاہ اکبر نے لاہور منتقلی کے بعد اناج کی فراوانی اور مناسب نرخوں کی فراہمی کے لیے عمل میں لایا تھا۔ 
لاہور کی تاریخ پر تحقیق کرنے والے محقق ڈاکٹر غافر شہزاد کے مطابق مغل بادشاہ بازار میں بکنے والی اجناس کی قیمتوں کے بارے میں بہت فکر مند رہتے تھے اور اسی سوچ نے اکبر کو یہ منڈی قائم کرنے پر راغب کیا کیونکہ وہ اجناس کی فراوانی کے ذریعے ان کی قیمتیں قابومیں رکھنا چاہتے تھے۔
غافر شہزاد نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’اکبر جب لاہور منتقل ہوا تو قیمتوں پر کنٹرول نہیں ہو رہا تھا۔جب اس نے لاہور کی توسیع کی تو یہ منڈی قائم کی تا کہ پورے پنجاب کی اجناس یہاں لا کر قیمتیں کم کی جائیں۔ ‘
’اس منڈی میں اجناس کی ورائٹی بہت زیادہ آتی تھی۔ پھر اسی علاقے میں مسجد وزیر خان کے قریب مصنوعات بننا اور بکنا بھی شروع ہو گئیں۔  اکبری منڈی کی وجہ سے لاہور کے اس حصے کی اپنی ایک ثقافت بن گئی۔ اکبری منڈی کے ارد گرد اس دور کے بڑے بڑے کاروباری لوگ آ کر آباد ہو گئے اور بڑی بڑی حویلیاں بن گئیں۔‘

جب لاہور پر انگریز حکومت کا قبضہ ہوا تو اس وقت بھی شہر کی اناج مارکیٹ یہی تھی (فوٹو: فیس بک)

ڈاکٹر غافر شہزاد کے مطابق 1857 کی جنگ آزادی کے بعد جب انگریز حکومت کا قبضہ لاہور پر بھی ہوا تو اس وقت بھی لاہور شہر کی اناج مارکیٹ یہی اکبری منڈی تھی۔ 
’اکبری منڈی نے صدیوں تک راج کیا ہے۔ اور جیسے جیسے کاروبار کا طریقہ کار بدل رہا ہے ویسے ہی اس کی اہمیت بھی تبدیل ہو رہی ہے۔‘
اکبری منڈی آج کس حال میں ہے؟
اکبری منڈی صدیاں گزر جانے کے بعد آج بھی مصالحہ جات اور اناج کی سپلائی کا ایک بڑا مرکز ہے۔ یہاں  ہر دکان کے سامنے سلیقے سے سجے ہوئے رنگ برنگے سٹال دکھائی دیتے ہیں۔ گرم مصالحہ، ہلدی، اجوائن، چنا، ہر طرح کی دالیں، چھوہارے اور اس قبیل کی ہر وہ شے جوآپ تصور کر سکتے ہیں اور کہیں اور سے نہیں ملتی یہاں سے مل جاتی ہے۔ 
لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایشیا کی سب سے بڑی اناج منڈی گردانی جانے والی اکبری منڈی میں اب خریداروں کی وہ بھیڑ نظرنہیں آتی جو کبھی اس کا خاصہ ہوا کرتی تھی۔

دکانداروں نے اکبری منڈی کا کاروباربرقرار رکھنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کا مطالبہ کیا ہے (فوٹو: ٹوئٹر)

ہر دکان پر اکا دکا گاہک متفکر چہروں والے تاجروں سے لین دین کرتے نظرآتے ہیں۔ بازار کے فرش اکھڑے ہوئے ہیں اور صفائی کا نظام نہ ہونے کے برابر ہے۔
 اکبری دروازے کے قریب ایک بڑی دکان میں بیالیس سال سے کاروبار کرنے والے بزرگ تاجر صلاح الدین بٹ بتاتے ہیں کہ جدید دور میں مواصلات کی آسانیوں کی وجہ سے اب لوگ اکبری منڈی کے محتاج نہیں رہے۔
’اب جگہ جگہ امپورٹرز بیٹھ گئے ہیں اور انہیں اکبری منڈی کی ضرورت نہیں رہی۔ ہر مال آپ کو اپنے شہر میں دستیاب ہے۔ یہاں کے کچھ تاجر بہت بڑے درآمد کنندگان ہیں پڑھے لکھے بچے آ گئے ہیں جو باہر ہی باہر سارے سودے کر لیتے ہیں۔‘۔
صلاح الدین بٹ جو 1978 میں اپنے والد کی وفات کے بعد سے اس دکان میں کاروبار کر رہے ہیں کہتے ہیں کہ اس منڈی میں کام کرنے والے تاجر کئی نسلوں سے یہاں سے منسلک ہیں۔ خود ان کی اب تیسری  نسل یہاں دکانداری کرتی ہے۔ دکانوں کی تعداد بڑھ گئی ہے لیکن کاروبار کا حجم سکڑ رہا ہے۔

دکانداروں کا کہنا ہے کہ اکبری منڈی کا سب سے بڑا مسئلہ پارکنگ ہے (فوٹو: ٹوئٹر)

انہوں نے بتایا کہ ’پہلے اس منڈی میں پندرہ سو کے لگ بھگ دکانیں تھیں لیکن اب پچیس سو کے قریب ہو چکی ہیں لوگوں نے گھر ختم کر کے دکانیں بنا لیں۔ کسی دور میں پنجاب بھر سے لوگ خریداری کے لئے آتے تھے کیونکہ اناج کی تھوک کی یہ سب سے بڑی مارکیٹ تھی۔ لیکن اب صورت حال بدل چکی ہے۔ اب تو فیصل آباد کی منڈی اس سے بڑی ہے۔‘۔
’میرے والد ان چند مسلمانوں میں سے ایک تھے جن کی دکان یہاں اکبری منڈی میں قیام پاکستان سے پہلے تھی۔ یہاں کے زیادہ تر تاجر ہندو تھے اور ان کے پاس پیسہ بھی بہت تھا۔ مسلمان کمزور تھے، زیادہ خریداری کی سکت نہیں رکھتے تھے۔ پھر وقت آیا کہ یہ ہندوستان کے بعد پاکستان کی سب سے بڑی منڈی بن گئی۔ اب صورت حال یہ ہے کہ کاروبار کا نظام بدل گیا ہے۔ اب تو یہ منڈی صرف اندرون ۔لاہور کے لئے ہی رہ گئی ہے۔ کریانے کا پرچون کا کام زیادہ ہو رہا ہے۔‘۔
ایک اور تاجر محمد خالد نے بتایا کہ اب اکبری منڈی کا سب سے بڑا مسٗلہ پارکنگ بن گئی ہے جس کی وجہ سے خریدار ادھر کا رخ نہیں کرتے اور اپنے علاقوں کے قریب چھوٹی مارکیٹوں کو ترجیح دیتے ہیں۔

اس منڈی میں کام کرنے والے تاجر کئی نسلوں سے یہاں سے کاروبار سے منسلک ہیں (فوٹو: سوشل میڈیا)

’آپ اس بات سے اندازہ لگائیں کہ اندرون کی دیگر مارکیٹوں کی نسبت اکبری منڈی کی دکانیں سستی ہیں۔ ہردوسرے بازار میں دکان اکبری منڈی سے مہنگی ہے۔ کیونکہ وہاں کام چل رہا ہے جبکہ اکبری منڈی کا کام بکھر گیا ہے۔ اب ہر شہر میں اناج کی منڈیاں ہیں اور خود مختار درآمد کنندگان ہیں۔‘۔
صلاح الدین بٹ کے مطابق حکومت کو اکبری منڈی کا کاروباراور معیار برقرار رکھنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ 
’اب تو مغلوں کا دور ختم ہو گیا۔ اب تو نیا پاکستان ہے بھلے اس کا نام عمران خان منڈی رکھ دیا جائے مگر سہولتیں فراہم کی جائیں۔ کئی بار اس منڈی کو اندرون سے نکالنے کی کوشش کی گئی لیکن ناقص حکمت عملی کی وجہ سے ناکامی ہوئی۔ اگر یہ اپنے دور کی سب سے بڑی منڈی نہ ہوتی توموجودہ ۔حالات کے سامنے اپنا وجود کب کا کھو چکی ہوتی۔‘۔

شیئر: