Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

برطانوی پاکستانیوں کی جبری شادیاں، مسائل آج بھی گھمبیر

جبری شادی کے 19 فیصد کیسز برطانوی شہریت رکھنے والے لڑکوں کی جانب سے رپورٹ کروائے گئے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
محمد اکرم 80 کی دہائی میں پاکستان کے ضلع جہلم سے برطانیہ منتقل ہوئے۔ کچھ ہی عرصے بعد انھوں نے اپنے اہل خانہ کو بھی بلا لیا۔ ان کی اولادیں بھی وہیں پیدا ہوئیں اور پلی بڑھیں۔ بچے جوان ہوئے تو سب بھائیوں نے پاکستان جا کر اپنے خاندان میں بچوں کی شادیاں کرنے کا سوچا۔
عموماً تو برطانیہ سے پاکستان آنے والے لڑکی یا لڑکے کی شادی پاکستان میں کسی رشتہ دار سے کی جاتی ہے لیکن محمد اکرم نے اپنی بیٹی کی شادی برطانیہ میں اپنے ساتھ ہی رہائش پذیر بھائی کے بیٹے سے کرنے کا فیصلہ کیا۔ دونوں خاندان پاکستان آئے۔ دولت کی ریل پیل کے باعث شادی بڑی دھوم دھام سے ہوئی۔
بدقسمتی سے یہ شادی تین سال بعد ختم ہوگئی۔ دونوں خاندانوں میں تو کوئی دراڑ نہ پڑی لیکن محمد اکرم کی بیٹی سعدیہ اکرم دونوں خاندانوں کی نظر میں مجرم ٹھہریں اور اس شادی کے ٹوٹنے کا ذمہ دار انہیں قرار دے دیا گیا۔ صرف والدین ہی نہیں بھائیوں سمیت دیگر رشتہ داروں نے بھی گھر میں رہنے کے باوجود سعدیہ سے بول چال بند کر دی جس کا اس کی نفسیاتی صحت پر بہت اثر پڑا۔

 

سعدیہ اکرم (متاثرہ خاتون کا فرضی نام) اب اپنے دوسرے شوہر کے ساتھ بہت خوش ہیں لیکن اب بھی وہ پہلی شادی میں آنے والی مشکلات اور مصائب کو نہیں بھولیں۔
ان کے مطابق ان کے پہلے شوہر  ان کے کزن تھے اور وہ ایک ساتھ پلے بڑھے تھے لیکن انہوں نے کبھی شادی کے بارے میں نہیں سوچا تھا  اور نہ ہی انہیں شادی کے بارے میں اس سے پہلے معلوم تھا، صرف والدین کی عزت کی خاطر اس کے لیے رضامندی ظاہر کر دی۔
’یہ ایک زبردستی کی شادی تھی۔ ہم دونوں ایک ساتھ پیدا ہوئے، ایک ساتھ کھیلے، پڑھے اور جوان ہوئے تھے۔ ہم نے کبھی ایک دوسرے کے بارے سوچا تک نہیں تھا۔ ہمیں معلوم بھی نہیں تھا کہ ہماری شادی ہو رہی ہے۔ پاکستان جا کر معلوم ہوا تو ہمیں عزت بے عزتی کی منطق سمجھائی گئی۔‘
ہمارے پاس کوئی آپشن ہی نہیں تھا۔ ہم کافی نا سمجھ تھے اور کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہے تھے۔ شادی ہوگئی اور ہمیں پتہ بھی نہیں تھا کہ شادی کیا چیز ہے۔ ہم تین سال شادی میں رہے اور ہم دونوں میں ایک لمحہ بھی ایسا نہیں تھا کہ جب ہم نے ایک دوسرے کو بحیثیت میاں بیوی قبول کیا ہو۔ ہم بات کرتے تھے اور ہماری گفتگو کا انجام یہی ہوتا تھا کہ ہم میاں بیوی نہیں ہوسکتے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’تین سال بعد جب ہم نے علیحدہ ہونے کا حتمی فیصلہ کر لیا تو فیصلہ کرنے میں میرے شوہر میرے ساتھ تھے لیکن جونہی ہم الگ ہوئے تو میرے خلاف شادی ناکام بنانے کا پراپیگنڈہ شروع ہو گیا اور اس میں میرے شوہر بھی شاید اپنے گھر والوں کے مجبور کرنے پر میرے خلاف ہو گئے۔‘

برطانوی حکومت کے جبری شادیوں سے متعلق یونٹ میں گزشتہ سال رپورٹ ہونے والے کیسز میں 41 فیصد کا تعلق پاکستان سے تھا (فوٹو: اے ایف پی)

سعدیہ اکرم کے سابق شوہر نوید اکمل، جوخود بھی اب دوسری شادی کرکے ایک بچے کے باپ ہیں،  نے ’اردو نیوز‘ کو بتایا کہ ان کی شادی زبردستی اور خاندانی دباؤ کی وجہ سے ہوئی تھی اسی لیے چل نہیں سکی۔
یہ بات سچ ہے کہ ہم دونوں کے درمیان میاں بیوی کے تعلق والا کوئی رشتہ نہیں بن سکا تھا۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم بچپن سے ہی ایسے ماحول میں رہے جہاں کزنز کو بھائی بہن کا درجہ حاصل ہوتا ہے پھر اچانک والدین خود سے شادی کا فیصلہ کر لیں تو ایڈجسٹ کرنا، وہ بھی جب آپ برطانیہ جیسے ماحول میں پلے بڑھے ہوں، مشکل ہوتا ہے۔‘
نوید اکمل نے کہا کہ 'ہم نے اس صورت حال پر کافی غور کیا تھا اور یہ بھی درست ہے کہ میں اپنی کزن جو کہ میری بیوی تھی کی جانب باوجود کوشش کے کبھی مائل نہیں ہوسکا تھا۔ اس لیے ہم نے علیحدہ ہونا ہی مناسب سمجھا۔ میں ابھی تک خاندان میں اپنی سابق بیوی کے بارے میں پائے جانے والے تاثر کو زائل نہیں کر سکا۔‘
برطانیہ میں رہنے والے پاکستانی خاندانوں کی یہ واحد کہانی نہیں ہے۔ اور نہ ہی یہ کوئی نیا مسئلہ ہے۔ بلکہ گزشتہ کئی دہائیوں سے نوجوانوں کی پاکستان میں کسی رشتہ دار سے زبردستی شادی کر دینا ایک معمول ہے۔

برطانوی حکومت کے جبری شادیوں سے متعلق یونٹ میں گزشتہ سال 1359 لڑکے اور لڑکیوں کی جبری شادیوں کے کیسز آئے (فوٹو: اے ایف پی)

زبردستی کے ان رشتوں کے پیچھے بہت سے محرکات ہوتے ہیں جن میں سے ایک بڑی وجہ والدین کی یہ سوچ ہے کہ برطانیہ کے ماحول میں پروان چڑھنے والے اپنی مرضی سے شادی کر لیں گے تو خاندان میں بے عزتی ہوگی۔
دوسری وجہ خاندان کے ان نوجوانوں کو بیرون ملک لے جانے کے لیے بھی جبری شادیاں کی جاتی ہیں جو پاکستان میں رہ کر اپنے خاندان کے مالی حالات سدھارنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔
زبردستی کی ان شادیوں کو رکوانے کے لیے برطانوی حکومت کی جانب سے2005 میں بنائے گیے ایک خصوصی یونٹ نے اب تک درجنوں لوگوں کو عین وقت پر اس جبری بندھن میں بندھنے سے بچایا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بہت سے والدین اپنے بچوں کی مرضی کے خلاف شادیاں کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے بچے بعد میں مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔
برطانوی حکومت کے جبری شادیوں سے متعلق قائم اس یونٹ میں گزشتہ سال دنیا بھر کے 66 ممالک میں برطانوی شہریت رکھنے والے 1359 لڑکے اور لڑکیوں کی جبری شادیوں کے کیسز آئے۔ جن میں 41 فیصد یعنی 559 کا تعلق پاکستان سے تھا۔ جبری شادی کے 19 فیصد کیسز برطانوی شہریت رکھنے والے لڑکوں کی جانب سے رپورٹ کروائے گئے۔

’ جبری شادی کے 19 فیصد کیسز برطانوی شہریت رکھنے والے لڑکوں کی جانب سے رپورٹ کروائے گئے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

برطانوی ہائی کمیشن کے ایک ترجمان نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’پاکستان میں گزشتہ سال رپورٹ ہونے والے جبری شادیوں کے کیسز میں اکثریت کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع میر پور، راولپنڈی، جہلم، اٹک اور شمالی پنجاب کے اضلاع سے ہے۔‘
ان کے مطابق کم و بیش ایک لاکھ برطانوی شہری پاکستان میں رہ رہے ہوتے ہیں یا پھر پاکستان آتے جاتے رہتے ہیں۔ یہ شہری مختلف مسائل کے لیے ہائی کمیشن سے رابطہ بھی کرتے ہیں۔ ان میں کئی ایک جبری شادیوں جیسے مشکل اور پیچیدہ مسائل بھی ہوتے ہیں۔
سعدیہ کی زندگی اب اچھی گزر رہی ہے لیکن پہلی شادی کی وجہ سے انہیں جس ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑا اس کی وجہ سے اب بھی وہ کئی مرتبہ افسردگی کا شکار ہو جاتی ہیں۔
نوٹ: اس کہانی کے تمام اصلی کرداروں کو متبادل نام دیے گئے ہیں تا کہ ان کی شناخت ظاہر نہ ہو۔

شیئر: