Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تاریخ سے چاند کا تعلق کتنا پرانا ہے؟

انسان قدیم زمانے سے روز و شب کا شمار چاند کی گھٹتی بڑھتی منزلوں سے کرتا آیا ہے۔ فوٹو: ان سپلیش
جھوٹ ہے سب تاریخ ہمیشہ اپنے کو دہراتی ہے 
اچھا میرا خوابِ جوانی تھوڑا سا دہرائے تو 
جوانی دیوانی کا خواب دہرانے کی خواہش ’عندلیب شادانی‘ کی ہے، ہمیں ایسی کوئی آرزو ہے نہ حسرت کہ بقول حفیظ جالندھری’ابھی تو میں جوان ہوں‘۔ اس شعر میں ہماری دلچسپی ’تاریخ‘ کی گرہ کُشائی تک محدود ہے۔ 
ہم پہلے بھی لکھ آئے ہیں کہ قحطانی عرب چاند کو’ارخ‘ پکارتے ہیں۔ انسان قدیم زمانے سے روز و شب کا شمار چاند کی گھٹتی بڑھتی منزلوں سے کرتا آیا ہے۔ دنوں کے اس شمار کو عربی میں ارخ (چاند) کی نسبت سے ’تاریخ‘ کہا گیا ہے۔ اس’تاریخ‘ کے معنی میں دنوں کا شمار اور وہ علم  داخل ہے جس میں ماضی کے واقعات سے بحث کی جاتی ہے۔ 
عربی میں چاند کا ایک نام ’قمر‘ بھی ہے، اسی نسبت سے چاند کی تاریخوں اور مہینوں پر مشتمل تقویم (کلینڈر) کو ’قمری تقویم‘ کہتے ہیں۔’قمری تقویم‘ انگریزی میں lunar calendar (لونر کلینڈر) کہلاتی ہے۔ Lunar کا لفظ ’Luna‘ سے متعلق ہے جو رومی دیومالا میں ‘چاند دیوی‘ کا نام ہے۔ اسی نسبت سے لاطینی میں ’چاند‘ کو ’لونا‘ کہا گیا ہے۔ 
دنیا کے بیشتر خطوں میں ایک چاند سے دوسرا چاند نظرآنے تک کی درمیانی مدت کو چاند ہی کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔آپ پوچھ سکتے ہیں ’وہ کیسے؟‘ 
توعرض ہے کہ سنسکرت میں چاند اور مہینہ دونوں کو ماس/ मास کہتے ہیں۔ جس طرح ’س‘ کے حرف ’ہ‘ سے بدلنے پر سنسکرت کا سُور(سورج) فارسی میں ’ھور‘ ہے، ایسے ہی سنسکرت کا ’ماس‘ فارسی میں ’ماہ‘ ہے۔ یہاں بھی ’ماہ‘ کے معنی میں چاند اور مہینہ دونوں شامل ہیں۔ ذرا دیر کو لفظ ’مہینہ‘ پر غور کریں کہ اسے بھی ’مہ‘ یعنی ’ماہ‘ ہی سے متعلق پائیں گے۔ اب انگریزی moon (چاند) کے ساتھ لفظ month (مہینہ) کا جائزہ لیں اس میں بھی آپ کو چاند چمکتا نظر آئے گا۔ 
اس سے پہلے کہ ’تاریخ‘ کا مکرر ذکرہو چاند کی رعایت سے ’جلیل مانک پوری‘ کا خوبصورت شعر ملاحظہ کریں: 
چاند بننا تمہیں مبارک ہو 
گھر ہمارا کرو گے کب روشن 
گھر سے پہلے ’تاریخ‘ پر روشنی ڈال لیں جسے انگریزی میں ہسٹری (history) کہتے ہیں۔ بعض اہل علم کے مطابق ’ہسٹری‘ اور’سٹوری‘ کی اصل عربی لفظ ’اساطیر‘ ہے۔ ’اساطیر‘ کے معنی ’قصہ، کہانی اور داستان ہے۔ اسے آپ قرآنی ترکیب ’اساطیرُالاولین‘ یعنی ’اگلے لوگوں کی کہانیاں‘ میں دیکھ سکتے ہیں۔ 
’سٹوری‘ کو ہندی میں ’کہانی اور کہاوت‘ کہتے ہیں، جن کے معنی میں ’کہی ہوئی بات‘ شامل ہے۔ اس کہنے کہلانے کے تعلق سے ہندی لفظ ’کُہْرام‘ بھی قابل غورہے۔ 
’کہرام‘ کے معنی میں ’رونا پیٹنا شامل ہے، پھر اس رونے پیٹنے کی رعایت سے ہنگامہ اور شورو غُل بھی اس کے معنی میں داخل ہے۔ ’کہرام‘ کی نسبت سے کہرام مچنا، اور کہرام ڈالنا‘ جیسے دسیوں محاورے اردو زبان کا حصہ ہیں۔ بدیس بس جانے والے’عابد نامی‘ نے اس ’کہرام‘ کو ایک شعر میں خوبصورتی سے باندھا ہے: 
دم کے دم میں دنیا بدلی بھیڑ چھٹی کہرام اٹھا 
چلتے چلتے سانس رکی اور ختم ہوا افسانہ بھی 

دنوں کے اس شمار کو عربی میں ارخ (چاند) کی نسبت سے ’تاریخ‘ کہا گیا ہے۔ فوٹو: ان سپلیش

مگر’کہرام‘ کا افسانہ ابھی باقی ہے کہ مولوی سید احمد دہلوی کے مطابق ’کہرام‘ کی اصل بعض اشخاص کے نزدیک ’قہرعام‘ ہے۔ دلیل اس کی یہ ہے کہ مسلمان خواتین تو عام بول چال میں لفظ ’کہرام‘ استعمال کرتی ہیں مگر ہندو’مہلاؤں‘ میں اس لفظ کا چلن نہیں ہے۔ 
دلچسپ بات یہ ہے کہ استاد کی رائے مولوی سید احمد دہلوی سے یکسر مختلف ہے۔ استاد کے مطابق لفظ ’کہرام‘ کی اصل ’کہورام‘ ہے۔ جیسے مسلمان مشکل وقت میں ایک دوسرے کو اللہ اللہ پکارنے کی ترغیب دیتے ہیں،ایسے ہی ہندو کڑے سمے میں ’کہورام‘ یعنی رام نام جپنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ ’کہو رام‘ اور ’کہرام‘ ایک دوسرے سے کتنے فاصلے پر ہیں اس کا فیصلہ قارئین پر چھوڑتے اور اِشہبِ قلم آگے دوڑاتے ہیں۔ 
’اِشہب‘ عربی میں مائل بہ سیاہی سفید رنگ کے گھوڑے کوکہتے ہیں۔ تاہم فارسی و اردو میں یہ لفظ ہر رنگ و نسل کے گھوڑے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ علامہ اقبال کہہ گئے ہیں 

’س‘ کے حرف ’ہ‘ سے بدلنے پر سنسکرت کا سُور (سورج) فارسی میں ’ھور‘ ہے۔ فوٹو: ان سپلیش

ہے دوڑتا اشہب زمانہ 
کھا کھا کے طلب کا تازيانہ 
گھوڑا اگر دوڑنے میں سستی دکھائے تو سوار اسے ایڑ لگاتا ہے۔ ’ایڑ‘ ہندی لفظ ہے جو ’ایڑی‘ سے متعلق ہے۔ ’ایڑ‘ اُس کانٹے یا دندانے دار پھرکی کو بھی کہتے ہیں جو سوار کے جوتے کی ایڑی میں لگی ہوتی ہے۔ یہ پھرکی انگریزی میں spur اور عربی میں ’مہمِیز‘ کہلاتی ہے۔ سوار جونہی گھوڑے کے پہلو میں مہمِیز لگاتا ہے گھوڑا ہوا ہوجاتا ہے۔ اس رعایت سے مہمیز کی مجازی معنی میں  تحریک، ترغیب اور تازیانہ شامل ہے۔ ’مہمیز‘ کو مجازی معنی کے ساتھ ’عباس تابش‘ کے شعر میں ملاحظہ کریں: 
کیا کوہِ گراں ٹھہرے تری راہ گزر میں 
اے حسن تری ایک ہی مہمیز بہت ہے 

گھوڑے کی ایک خاص طرح کی چال کو عربی میں ’خیالہ‘ کہتے ہیں۔ فوٹو: ان سپلیش

مہمیز کی رعایت سے اردو میں ’مِہمِیز دینا اور مِہمِیز لگانا جیسی بہت سی تراکیب رائج ہیں۔ 
گھوڑے کی ایک خاص طرح کی چال کو عربی میں ’خیالہ‘ کہتے ہیں، اسی ’خیالہ‘ کی نسبت سے خود گھوڑے کو’خیل‘ کہا گیا، پھرگھوڑے کی دیکھ بھال کو ’خیل‘ کی رعایت سے ’خیال‘ پکارا گیا۔    
اردو زبان تک پہنچتے پہنچتے ’خیال‘ کے معنی میں وسعت پیدا ہوگئی، یوں اس کے معنی میں دھیان، تصور، وہم، گمان، پاس، لحاظ اور توجہ وغیرہ شامل ہوگئے۔    

گھاس ہندی زبان کا لفظ ہے جو انگریزی میں پہنچ کر ’گراس‘ (Grass) ہوگیا ہے۔ فوٹو: ان سپلیش

اس سے پہلے کہ اجازت چاہیں گھوڑے اور گھاس کی رعایت سے ایک محاورہ گوارا کر لیں۔ محاورہ ہے’گھوڑا گھاس سے آشنائی کرے گا تو کھائے گا کیا‘۔ گھاس ہندی زبان کا لفظ ہے جو انگریزی میں پہنچ کر ’گراس‘ (Grass) ہوگیا ہے۔ ہندوستان اور انگلستان کے درمیان میں اس لفظ کا ایک پڑاؤ ایران میں ہے، جہاں گھاس ’گیاہ‘ کی صورت میں لہلہا رہی ہے۔ گیاہ سوکھ جائے تو ’کاہ‘ کہلاتی ہے، یہ ہمارا نہیں میرزا غالب کا کہنا ہے: 
سبز ہو جب تک اسے کہیے گیاہ 
خشک ہو جاتی ہے تب کہتے ہیں کاہ
باخبر رہیں، اردو نیوز کو ٹوئٹر پر فالو کریں

شیئر: