Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آرمی چیف کے نوٹس لینے پر کارروائی کیسے ہوتی ہے؟

سابق سیکرٹری دفاع جنرل ریٹائرڈ آصف یاسین کے مطابق آرمی میں اس طرح کی رپورٹ بہت جلد تیار کر لی جاتی ہے۔ فوٹو: ٹوئٹر
پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی جانب سے کراچی  واقعے کا نوٹس لینے کے بعد کور کمانڈر کراچی کی جانب سے ان کو رپورٹ دنوں میں نہیں گھنٹوں میں دی جائے گی۔
سابق سیکرٹری دفاع جنرل ریٹائرڈ آصف یاسین جو کہ خود کور کمانڈر پشاور بھی رہ چکے ہیں کا کہنا ہے کہ آرمی میں اس طرح کی رپورٹ بہت جلد تیار کر لی جاتی ہے تاہم ان کے مطابق اس طرح کی رپورٹ  پبلک نہیں کی جاتی بلکہ یہ ادارے کی داخلی معلومات کے لیے ہوگی۔
یاد رہے کہ کراچی میں مسلم لیگ ن کے رہنما کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ایف آئی ار کے اندراج اور ان کی گرفتاری کے بعد سندھ کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو نے آرمی چیف سے واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔

 

بلاول بھٹو کی پریس کانفرنس کے کچھ دیر بعد  پاکستان کی فوج کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا تھا کہ آرمی چیف نے کور کمانڈر کراچی سے کہا ہے کہ واقعے کی تحقیقات کر کے رپورٹ دیں۔

عام طور پر آرمی چیف کے نوٹس لینے پر  کیسے کارروائی ہوتی ہے؟

اس حوالے سے اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر لیفٹیننٹ جنرل آصف یاسین ملک کا کہنا تھا کہ فوج کی اس طرح کی تحقیقات میں یہ نہیں ہوتا کہ گواہیاں ہوں اور لمبا چوڑا وقت لیا جائے۔ ’میرے خیال میں آرمی چیف کو چند گھنٹوں میں یا زیادہ سے زیادہ بدھ تک رپورٹ مل جائے گی۔‘
فوج کے نظام میں جب اس طرح کی رپورٹ مانگی جاتی ہے تو واقعاتی شہادتوں اور ثبوتوں کی بنیاد پر فوری رپورٹ تیار کی جاتی ہے اور ہائی کمان تک پہنچا دی جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں جس طرح کا واقعہ ہوا ہے وہ پاک فوج کی تاریخ میں کبھی نہیں دیکھا گیا کہ جس میں وزیراعلیٰ اور آئی جی کے حوالے سے اس طرح کی شکایت آئے اور انکوائری ہو اس لیے یہ اپنی نوعیت کا واحد کیس ہے۔
انہوں نے واقعے کی صحت پر بھی شک کا اظہار کیا اور کہا کہ اگر واقعی آئی جی اتنا کمزور ہوتا ہے تو اسے چھٹی کی درخواست کے بجائے استعفیٰ دینا چاہیے۔

’کراچی واقعے میں کیا سچ ہے کیا جھوٹ ہے انکوائری کے بعد نکل آئے گا۔‘ (فوٹو: ٹوئٹر)

قومی ڈائیلاگ کی ضرورت ہے: لیفٹیننٹ جنرل غلام مصطفی
دوسری طرف ایک نجی ٹی وی چینل سما کے ٹاک شو میں بات کرتے ہوئے ایک اور ریٹائرڈ آرمی آفیسر لیفٹیننٹ جنرل غلام مصطفی کا کہنا تھا کہ کراچی واقعے میں کیا سچ ہے کیا جھوٹ ہے انکوائری کے بعد نکل آئے گا تاہم ہمیں سوچنا ہوگا کہ  وطن عزیز کے ساتھ ہم کیا کر رہے ہیں۔
سیاسی قائدین جن کا کام ہے بچوں کو صحیح راستہ دکھانا وہ ملک کو آہستہ آہستہ دلدل میں لے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں اب کوئی ادارہ محترم نہیں رہ گیا۔ غلطیاں سب نے کی ہیں مگر اب ہم دلدل میں کھڑے ہیں سب نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑنا ہے تو باہر نکل کر آئیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس موقع پر قومی ڈائیلاگ کے لیے ان کی درخواست ہے کہ وفاق کی علامت صدر مملکت بیچ میں آئیں اور تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو بلا کر مکالمہ کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسا کرنے کا موقع ابھی ہے کیونکہ اس کے بعد دیر ہو جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ آرمی چیف کو بھی نوٹس لینا چاہیے۔ اگر فوج کے اندر بے چینی پھیلی جو لازمی پھیلے گی تو آرمی چیف غیر متعلق نہیں رہ سکتے۔ انہیں اپنی فوج کو متحد رکھنا ہے، آرمی چیف صدر کے ساتھ مل کر بات چیت کا حصہ بنیں۔

شیئر: