Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کوئٹہ میں کس نے کس کے ہمراہ جلسے کیے؟

2018 میں بلاول بھٹو زرداری نے بھی کوئٹہ میں جلسہ کیا تھا (فائل فوٹو: اے ایف پی )
پاکستان میں فروری 2008ء کے انتخابات سے صرف 12 روز قبل کوئٹہ کے ریلوے ہاکی گراﺅنڈ میں جلسے کے لیے سجائے گئے سٹیج پر آج کے بد ترین سیاسی مخالف ایک ہی رنگ کی روایتی چترالی ٹوپی ’پکول‘ پہنے عمران خان اور محمود خان اچکزئی نہ صرف کندھے سے کندھے ملائے ایک ساتھ بیٹھے تھے بلکہ ان کے خیالات میں بھی کافی ہم آہنگی تھی۔ 
پرویز مشرف کے اقتدار کے سائے میں انتخابات کے بائیکاٹ کی مہم میں شامل آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ (اے پی ڈی ایم) کے پلیٹ فارم سے دونوں خانوں کا ہدف ِتنقید پرویز مشرف کے ساتھ ملک کی بڑی جماعتیں نواز لیگ، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی بھی تھیں۔ ملک میں حقیقی جمہوریت کی بحالی اُس وقت ان کا سب سے بڑا نعرہ تھا۔ 
بارہ برس بعد ایک بار پھر کوئٹہ میں اسی ریلوے ہاکی گراﺅنڈ کے بالکل سامنے زرغون روڈ پر اسی نعرے کے تحت سیاسی جماعتیں اکٹھی ہورہی ہیں۔ مگرفرق یہ ہے کہ آج مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام کے ساتھ ساتھ محمود خان اچکزئی کی پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، سردار اختر مینگل کی بلوچستان نیشنل پارٹی اور دوسری قوم پرست جماعتیں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی چھتری تلے اکٹھی ہیں اور ان کا ہدف سب سے بڑے سیاسی مخالف عمران خان ہیں۔ 
ماضی قریب و بعید میں بھی تشکیل پانے والے حکومت مخالف اتحادوں میں بلوچستان نمایاں رہا ہے۔ ایم آر ڈی، نیپ، اے آر ڈی، پونم ہو یا پھر اے پی ڈی ایم بلوچستان کی سیاسی جماعتوں نے مختلف پلیٹ فارمز سے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے کو فروغ دینے کے لیے عوام کو متحرک کیا اور بڑے اجتماعات منعقد کیے۔
عمران خان، میاں نواز شریف، مولانا فضل الرحمان، محمود خان اچکزئی، سردار اختر مینگل، عبدالمالک بلوچ اور ان کی جماعتیں بھی کوئٹہ میں سیاسی اتحاد کے مشترکہ یا پھر انفرادی طور پر جلسوں کے ذریعے طاقت کا مظاہرہ کرچکی ہیں۔

عمران خان نے سنہ 2017 میں کوئٹہ میں جلسہ کیا۔ فوٹو: اے ایف پی

کوئٹہ میں آخری بڑا جلسہ 2 دسمبر 2019ء کو کوئٹہ کے ریلوے ہاکی گراﺅنڈ میں پشتونخوا میپ کے بانی عبدالصمد خان اچکزئی کی برسی کی مناسبت سے ہوا جس سے مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی نے خطاب کیا۔ ستمبر 2019ء میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سابق وزیراعلیٰ سردار اختر مینگل نے بھی اسی میدان میں پارٹی رہنماء نواب امان اللہ زہری کے قتل کے خلاف ان کی یاد میں بڑا مجمع اکٹھا کیا۔
جس مقام پر پی ڈی ایم پچیس اکتوبر کو اپنا جلسہ کرے گی۔ اسی مقام پر آخری بڑا جلسہ 28 جولائی 2019ء کو جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کیا۔ انہوں نے اسی سٹیج سے ہی عمران خان کی حکومت کے خلاف اسلام آباد کی جانب آزادی مارچ کا اعلان کیا تھا۔ 
اس سے تین روز قبل 25 جولائی 2019ء کو انتخابات کے ایک سال مکمل ہونے پر اپوزیشن سیاسی جماعتوں پشتونخوا میپ، نیشنل پارٹی، جے یو آئی اور ن لیگ نے کوئٹہ کے ایوب اسٹیڈیم میں مشترکہ جلسہ کیا۔ روایتی بلوچی لباس پہنے مریم نواز نے اس جلسے سے خطاب کیا۔ یہ ان کا بلوچستان میں کسی بھی سیاسی اجتماع سے پہلا خطاب تھا۔
دو دسمبر2017ء کو میاں نواز شریف نے کوئٹہ میں محمود خان اچکزئی کے والد عبدالصمد خان اچکزئی کی برسی کی مناسبت سے منعقدہ جلسے میں شرکت کی توبلوچستان میں ن لیگ، پشتونخوامیپ اور نیشنل پارٹی کی مخلوط حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہوا اور بالآخر انہیں رخصت ہونا پڑا۔

2019 میں کوئٹہ میں مولانا فضل الرحمان نے حکومت مخالف مارچ کا اعلان کیا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

کوئٹہ پریس کلب کے سابق جنرل سیکریٹری عبدالخالق رند کہتے ہیں کہ ایم آر ڈی ہو، اے آر ڈی، پونم، اے پی ڈی ایم یا دوسرے سیاسی اتحاد بلوچستان ہمیشہ نمایاں رہا۔ اسی کے دہائی میں سردار عطاءاللہ مینگل، نواب اکبر خان بگٹی، میر غوث بخش بزنجو، عبدالصمد خان اچکزئی اور عبدالولی خان نے کوئٹہ میں بڑے جلسے کیے۔
اکتوبر 1983ء کو کندھاری بازار کوئٹہ سے ضیاء مارشل لاء کے خلاف محمود خان اچکزئی کی قیادت میں پشتونخوا پارٹی نے ریلی نکالی تو اس پر فائرنگ کی گئی جس میں چار کارکن ہلاک ہوئے۔ واقعہ کے بعد محمود خان اچکزئی نے خود ساختہ جلا وطنی اختیار کرلی۔ 1986ء میں بے نظیر بھٹو نے وطن واپسی پر جبکہ 90 کی دہائی میں میاں نواز شریف نے پشتونخوا میپ کے ساتھ مل کر صادق شہید گراﺅنڈ میں سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا۔
سنہ 2001 میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد دفاع افغان کونسل نے بھی کوئٹہ میں بڑے جلسے کیے۔ اے آر ڈی کی تحریک کے زیر اہتمام بھی کوئٹہ میں احتجاج کیا گیا۔ محکوم قوموں کی تحریک (پونم) کے زیر اہتمام قوم پرست جماعتوں کا اتحاد بنا تو سردار عطاءاللہ مینگل، محمود خان اچکزئی، ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ، قادر مگسی کی قیادت میں کوئٹہ میں کئی بڑے جلسے کیے۔ 
عدلیہ بحالی تحریک میں بھی بلوچستان پیش پیش رہا اور یہاں کی تقریباً تمام بڑی جماعتیں احتجاج کا حصہ بنیں۔ اس کے بعد اے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے جب پرویز مشرف مخالف اورانتخابات کے بائیکاٹ کی مہم چلی تو ابتداءمیں ن لیگ اور جے یو آئی بھی بھی اس کا حصہ تھیں ۔ اگست2007ء میں کوئٹہ کے صادق شہید گراﺅنڈ میں اے پی ڈی ایم کے جلسے میں مولانا فضل الرحمان، منور حسن، محمود اچکزئی، عبدالحئی بلوچ اور تحریک انصاف کے رہنماﺅں نے شرکت کی۔ جلاوطن نواز شریف نے لندن سے ٹیلیفونک خطاب کیا۔ 

مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز 2019 میں حکومت مخالف جلسے میں شریک ہوئیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

دسمبر 2007ءمیں کوئٹہ کے ریلوے ہاکی گراﺅنڈ میں بینظیر بھٹو نے اپنی موت سے کچھ روز قبل جلسہ کیا مگر جلسہ گاہ نہ بھرنے پر سابق وزیراعظم صوبائی قیادت سے ناخوش دکھائی دی۔
لاہور کے تاریخی جلسے کے بعد تحریک انصاف ایک نئی شکل میں سامنے آئی تو عمران خان نے اپریل 2012ء میں کوئٹہ کے ایوب اسٹیڈیم کے ہاکی گراﺅنڈ میں بھر پور عوامی طاقت کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کے ساتھ ساتھ اے پی ڈی ایم سے نکل کر وعدہ خلافی کرکے الیکشن میں حصہ لینے پر نواز شریف کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ مئی2017ء میں عمران خان نے ایوب اسٹیڈیم میں ایک بار پھر جلسہ کیا۔
پاکستان میں عامل صحافیوں کی تنظیم پی ایف یو جے کے صدر اور کوئٹہ کے سینیئر صحافی شہزاد ذوالفقار کے مطابق ستر، اسی اور نوے کی دہائی کے جلسوں میں لوگوں کی شرکت کا موازانہ آج کے عوامی اجتماعات سے نہیں کیا جا سکتا کیونکہ تب کوئٹہ کی آباد ی بہت کم تھی۔ وسائل بھی آج کی طرح دستیاب نہیں تھے۔ ماضی کی نسبت اب اجتماعات بہت بڑے ہوتے ہیں۔
شہزادہ ذوالفقار نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 25 اکتوبر کو پی ڈی ایم کا کوئٹہ میں ہونے والا جلسہ گوجرانوالہ اور کراچی کی طرح بڑا ہوگا کیونکہ اس اتحاد میں شامل جماعتیں سٹریٹ پاور رکھتی ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام، پشتونخوا میپ، بی این پی اور نیشنل پارٹی اکیلے بڑے جلسے کرسکتی ہے۔ یہ ملکر اجتماع کریں گی تو حکومت کی پریشانیوں میں اضافہ ہوگا۔

پاکستان پیپلز پارٹی بھی کوئٹہ کے جلسوں میں سرگرم دکھائی دی (فائل فوٹو: اے یف پی)

ان کے بقول اس وقت پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ایک نکاتی ایجنڈے پر اکٹھی ہوئی ہیں۔ وہ جماعتیں جو پہلے اسٹیشبلمنٹ نواز مانی جاتی تھیں اب ان کا بیانیہ بھی تبدیل ہو گیا۔ ایک دور میں ایم ایم اے کو ملا ملٹری الائنس کہا جاتا تھا مگر اب جے یو آئی اسٹیبلشمنٹ مخالف احتجاجی تحریک میں پیش پیش ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ کئی جماعتوں کا مزاج بدل گیا ہے مگر بلوچستان کے قوم پرست شروع سے ہی اسی مزاج کے حامل تھے۔
شہزادہ ذوالفقار نے کہا کہ عوامی اجتماعات کے ذریعے اپوزیشن جماعتیں اپنے کارکنوں اور صوبے کے لوگوں کی ذہن سازی کرکے انہیں متحرک کرنا چاہتی ہیں۔ پی ڈی ایم تمام خرابیوں کی ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ کو قرار دیتی ہے اور ان کے نزدیک بلوچستان میں مداخلت بھی زیادہ ہیں۔ یہاں کی سیاسی جماعتوں کا ہدف ہے کہ وہ ملکی سیاست میں اپنے لیے ختم ہوتی سپیس کو دوبارہ بحال کریں۔

شیئر: