Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا میں’پیدائش سے ہی ذات آپ کا پیچھا شروع کر دیتی ہے‘

نامناسب سلوک کی بنا پر دلتوں نے احتجاج بھی کیے (فوٹو: اے ایف پی)
انڈیا میں کمیونیکشن انڈسٹری کی ایوارڈ یافتہ سنیہاپو پداوتن کو کارپوریٹ سیکٹر میں اب تک آگے جانا چاہیے تھا لیکن ان کی ترقی کی راہ میں ایک رکاؤٹ حائل ہے اور وہ یہ کہ ان کا تعلق انڈیا کی نچلی ذات دلت سے ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق 35 برس کی کمیونیکشن ایگزیکٹو سنیہاپو پداوتن کو مستقل امتیازی سلوک کی وجہ سے بار بار نوکریاں تبدیل کرنے پر مجبور کیا گیا۔ اس دوران ان کو ذہنی تناؤ جیسے مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
دلت انڈیا کی 130 کروڑ کی آبادی کا چھٹا حصہ ہیں۔ ہندو مذہب میں ان کی کم حیثیت کی وجہ سے دلتوں کو روزانہ کی بنیاد پر تشدد اور نامناسب سلوک کا سامنا ہے۔
انڈیا کے صدر رام ناتھ کووند بھی دلت ہیں، بی آر آمبیڈکر نے انڈین آئین تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کیا لیکن اب بھی انڈیا میں ذات پات سے متعلق مسائل موجود ہیں۔
حتٰی کہ صدیوں پرانے ذات پات کا یہ مسئلہ سیلیکون ویلی میں بھی سامنے آیا جہاں ٹیکنالوجی کمپنی سیسکو ذات پات کے ایک امتیازی مقدمے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
سنیہاپو پداوتن نے کمیونیکیشنز میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی ہے۔ سنیہاپو پاداوتن ان کا اپنا نام نہیں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ جب انہوں نے 2008 میں ایک ملٹی انڈسٹری کمپنی میں کام کا آغاز کیا تو ان کو ذات سے متعلق پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔
’جیسے ہی میرے ساتھ کام کرنے والے اعلیٰ ذات کے ساتھیوں کو احساس ہوا کہ وہ ایک ایسی برادری سے تعلق رکھتی ہیں جس کو اچھوت سمجھا جاتا ہے تو اس پر طنز آنا شروع ہوئے۔‘
29برس کی عمر میں ان کو ہائی بلڈ پریشر کا مسئلہ شروع ہوا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ترقی کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے کے تمام افراد کو شامل کیا جائے (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے کہا کہ ’انڈیا میں ذات پات کو اہمیت دی جاتی ہے چاہے آپ کو اس کا احساس ہو یا نہ ہو۔ آپ کی پیدائش کے وقت سے ہی آپ کی ذات آپ کا پیچھا کر رہی ہوتی ہے۔‘
انڈیا میں دلتوں کو مندروں اور سکولوں میں جانے کی اجازت نہیں تھی اور ان کو گندگی صاف کرنے کے کام کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا جبکہ اقتصادی مواقع پر اونچی ذات اجارہ داری تھی۔
2012 میں کینیڈا میں ہونے والے ایک تحقیق کے مطابق انڈیا میں ایک ہزار بزنسز میں 93 فیصد بورڈ ممبرز کا تعلق اعلیٰ ذات سے ہیں جو کہ آبادی کا 15 فیصد سے بھی کم ہے۔
گذشتہ برس ایک امریکی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کی کہ چار ہزار پانچ انڈین فرمز میں 35  ہزار ڈائریکٹر شپ میں سے صرف تین دلتوں اور دیگر پسماندہ گروپس سے تھے۔
بہت سے انڈین شہریوں کے خیال میں ذات پات کی تفریق دوردراز کے دیہاتوں میں موجود ہے اور یہ ان کی روزمرہ کی زندگی میں نہیں ہے۔
میلبورن یونیورسٹی میں سٹریٹجی اور انٹرنیشنل بزنس کے پروفیسر ہری باپوجی کہتے ہیں اگر بزنس مین مارکیٹ کی ضروریات کو سمجھنا چاہتے ہیں تو سب کو ساتھ کے کر چلنا بہت ضروری ہے۔

شیئر: