Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جو بائیڈن کی پٹاری اور پاکستان 

'پاکستانی فیصلہ سازوں اور پالیسی میکرز کے پاس بھی بائیڈن انتظامیہ کے ساتھ اینگیج کرنے کے لیے سوچ بچار اور ہوم ورک کا وقت ہے۔۔۔' فائل فوٹو: اے ایف پی
چار دن کے تکلیف دہ انتظار کے بعد ہفتے کی رات تمام امریکی میڈیا نے بالآخر سکھ کا سانس لیا کہ امریکہ میں ٹرمپ کا عہد تمام ہوا، اور جو بائیڈن امریکہ کے نئے صدر منتخب ہوگئے۔ 
یوں تو صدر ٹرمپ بضد ہیں کہ وہ وائٹ ہاؤس اتنی آسانی سے نہیں چھوڑیں گے تاہم وہ دن اب دور نہیں جب ٹرمپ کا دور
ایک ڈراؤنا خواب لگے گا۔ روایات کے مطابق متوقع صدر کا عالمی رہنماؤں سے براہ راست رابطہ تو اس وقت تک نہیں ہوگا جب تک مخالف ہار نہ مان لے یا انتخابات کے حتمی نتائج نہ آجائیں۔ 
سوشل میڈیا نے البتہ کام آسان کر دیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سے لے کر بورس جانسن اور مودی تک کئی رہنماؤں نے مبارکبادی ٹویٹس میں دیر نہیں کی۔ اس کے ساتھ نئے صدر کے بین الااقومی اقدامات کے بارے میں تبصرے بھی جاری ہیں۔ 
جو بائیڈن کی فتح پر پاکستانیوں کی خوشی شاید بیگانی شادی میں عبدﷲ دیوانہ والی لگے مگر دو باتیں مسلمہ ہیں۔ 
پہلی بات یہ کہ امریکہ وہ طاقت ہے جس کی پالیسی کے براہ راست اثرات باقی دنیا پر ہوتے ہیں۔ دوسرا پاکستان معاشی، سیاسی اور سیکورٹی کے معاملات پر امریکی اقدمات سے متاثر ہوتا رہا ہے اور آگے بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔  پاکستانیوں کی امریکی انتخاب میں دلچسپی اس لیے بھی ہے کیونکہ یہ سوال بہرحال اہم ہے کہ  آخر جو بائیڈن کی پٹاری میں پاکستان کے لیے کیا ہوگا۔  

'سابق وزیر اعظم نواز شریف کے استقبال تک بائیڈن سے پاکستان کے اندرونی معاملات ڈھکے چھپے نہیں۔' فائل فوٹو: اے ایف پی

سب سے پہلے تو بات ہے معاملات سے واقفیت کی۔ نصف صدی سے امریکی سیاست میں متحرک جو بائیڈن 80 کی دہائی سے لے کر 2016 تک اس خطے میں امریکی پالیسی کا حصہ رہے ہیں۔ کیری لوگر بل کی ابتدا سے لے کر مشرف کے انخلا تک اور سابق صدر زرداری سے ہلال استقلال وصول کرنے سے لے کر سابق وزیر اعظم نواز شریف کے استقبال تک ان سے پاکستان کے اندرونی معاملات ڈھکے چھپے نہیں۔ اس بات میں تو کوئی شک ہی نہیں ہے کہ جب بھی پاکستان کے حالات زیر غور آئیں گے تو بائیڈن کا جھکاؤ جمہوری قوتوں کی طرف ہی ہو گا۔ فی الحال دیکھنا یہ بھی ہوگا کہ ہائبرڈ نظام حکومت کے بارے میں بائیڈن انتظامیہ کیا اپروچ اپنائے گی۔  
امریکی پالیسی البتہ اندرونی معاملات کے بجائے خطے کے حالات پر زیادہ منحصر ہوتی ہے۔ صدر بائیڈن شاید چین کے ساتھ ٹرمپ جیسی لفظی جنگ میں تو نہ الجھیں مگر امریکن اولڈ سکول ڈپلومیسی کےتحت دھیرے دھیرے پاکستان کو چینی کیمپ سے مغربی کیمپ کی طرف مائل کرنے کی کوششں ضرور بحال کریں گے۔ یہاں پر امتحان ہماری ڈپلومیسی کا ہو گا کہ ہم کس طرح دونوں کو ناراض کیے بغیر توازن قائم رکھ سکیں۔ 

'جو بائیڈن کی فتح پر پاکستانیوں کی خوشی شاید بیگانی شادی میں عبدﷲ دیوانہ والی لگے مگر دو باتیں مسلمہ ہیں۔' فائل فوٹو: اے ایف پی

امریکہ کی چین پالیسی کا براہ راست اثر امریکہ، بھارت دفاعی تعلقات اور بالواسطہ خطے کے امن پرہوگا۔ مودی حکومت نے چین کے ساتھ جارحانہ رویہ رکھ کر امریکہ سے دفاعی تعاون بڑھایا جس میں خصوصا ٹرمپ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے متحرک کردار ادا کیا۔ اب ٹرمپ ہوں گے نہ پومپیو۔ مبصرین کا محتاط اندازہ یہ ہےکہ بائیڈن کی متوقع پالیسی کا جھکاؤ چین کو ایشیا پیسیفک اور تائیوان سے روکنے کی  طرف زیادہ ہوگا۔ جبکہ انڈیا کو چین کے مقابلے میں مسلح کرنے کا امکان کم ہے۔
دوسری طرف ٹرمپ کی نسبت ڈیموکریٹ صدارت کی جانب سے انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بھی رد عمل آئے گا۔ اس صورتحال میں پاکستان کو انڈین جارحیت کو ایکسپوز کرنے کا موقع ملے گا۔ 

'نصف صدی سے امریکی سیاست میں متحرک جو بائیڈن 80 کی دہائی سے لے کر 2016 تک اس خطے میں امریکی پالیسی کا حصہ رہے ہیں۔' فائل فوٹو: اے ایف پی

خطے میں امریکہ کی فوری دلچسپی کا مرکز بہر حال افغانستان ہے جہاں امن معاہدہ اب عمل درآمد کے مرحلے پر ہے۔ اس کے ساتھ ہی کابل یونیورسٹی جیسے دہشت گرد حملے بھی جاری ہیں۔ براک اوباما کے دور میں بھی جو بائیڈن امریکہ میں فوجی موجودگی بڑھانے  یا surge کے حق میں نہیں تھے۔ امکان ہے کہ وہ امریکی فوجیوں کے انخلا کو جاری رکھیں گے مگر یہ بھی واضح ہے کہ انسانی حقوق اور دہشت گردی کے معاملات میں طالبان کے لیے ان کا نرم گوشہ کم ہی ہوگا۔ افغان امن معاہدہ تو شاید جاری رہے مگراس کی شرائط میں تبدیلی کا امکان ہے۔ مگر اس میں پاکستان کا کردار کم نہیں زیادہ ہی ہو گا۔  
خطے میں پاکستان کا چوتھا اہم ہمسایہ ایران ٹرمپ انتظامیہ کی خاص نگاہ میں رہا ہے۔ ایران پر بھی امریکی پالیسی واپس مذاکرات کی طرف جانے کی امید ہے۔  پاکستان کی دلچسپی ایران سے گیس پائپ لائن پراجیکٹ کی  بحالی میں ہو گی۔ جس پر فوری حرکت تو شاید نہ ہو مگر مستقبل میں اس موقعے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

 

پاک امریکہ تعلقات میں آئندہِ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور معاون خصوصی معید یوسف کا کردارکلیدی ہوگا۔

'شاہ محمود قریشی البتہ امریکہ کے ہی ایشو ریمنڈ ڈیوس کی رہائی پر استعفیٰ دے چکے ہیں۔' فائل فوٹو: اے ایف پی

مگر امید ہے کہ وہ اپنی گذشتہ وزارت کے تجربے اور تعارف کو بروئے کار لائیں گے۔ اسی طری معید یوسف بھی ڈیموکریٹس کو قریب سے دیکھ اور ڈیل کر چکے ہیں اور نئی انتظامیہ سے بات چیت میں اہم کردار ادا کریں گے۔  
امریکی صدر کے متخب ہونے سے اقتدار کا باقاعدہ حلف لینے تک تقریبا دو ماہ کا وقفہ ہوا کرتا ہے۔ اس دوران جہاں وائٹ ہاؤس میں ایک طرف ٹرمپ انتظامیہ تمام امور بائیڈن انتظامیہ کو منتقل کر رہی ہوگی وہیں اس ٹرانزیشن کے دوران پاکستانی فیصلہ سازوں اور پالیسی میکرز کے پاس بھی بائیڈن انتظامیہ کے ساتھ اینگیج کرنے کے لیے سوچ بچار اور ہوم ورک کا وقت ہے۔ بائیڈن اس خطے کے پر پیچ سیاسی امور سے بخوبی شناسا ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ کا یہ تجربہ اس وقت پاکستان کے لیے ایک چیلنج بھی بن سکتا ہے اور موقع بھی۔ 
پاکستان اس سے کتنا فائدہ اٹھاتا ہے یہ  ہماری سفارتی صلاحیت پر منحصر ہے۔ 

شیئر: