Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’وزیراعظم کے کہنےپر ہی آرمی چیف نے بلاول کو فون کیا‘

فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ کرائسسز کو ہینڈل کرنا اشد ضروری تھا (فوٹو: پی آئی ڈی)
معاون خصوصی برائے اطلاعات پنجاب فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ مزار قائد کی بے حرمتی کے واقعے کے بعد وزیراعظم عمران خان کے کہنے پر ہی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بلاول بھٹو زرداری سے رابطہ کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ’پرائم منسٹر آف پاکستان کے کہنے پر ہی چیف آف آرمی سٹاف نے بلاول بھٹو کو کال کی تھی، اور جو کرائسسز پیدا ہورہا تھا اس کو ہینڈل کرنا اشد ضروری تھا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ فوج نے ثابت کر دیا کہ اس کے اندر احتساب کا نظام موجود ہے۔
گذشتہ ماہ کراچی میں مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری سے قبل آئی جی سندھ کے ساتھ پیش آنے واقعے پر بلاول بھٹو زرداری نے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔
دوسری جانب وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی ڈاکٹر شہباز گِل نے ان کے بیان سے متعلق ٹویٹ کی کہ ’یہ فردوس عاشق اعوان کا ذاتی تجزیہ یا خیال ہو سکتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ریکارڈ کی درستی کے لیے یہ بات درست نہیں۔‘
آئی جی سندھ کے معاملے پر پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے صبح چار بجے آئی جی کے گھر کا گھیراؤ کیا۔ اور ان کو کہاں لے کر گئے تھے۔
منگل کو افواج پاکستان کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے کورٹ آف انکوائری رپورٹ سے متعلق ایک بیان میں کہا تھا کہ آئی جی سندھ کے تحفظات کے حوالے سے کورٹ آف انکوائری مکمل کر لی گئی ہے اور کورٹ آف انکوائری کی سفارشات پر متعلقہ افسران کو عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔

آئی جی سندھ کے معاملے پر بلاول بھٹو نے آرمی چیف سے تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

 آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق کورٹ آف انکوائری کی تحقیقات کے مطابق 18 اور 19 اکتوبر کی درمیانی شَب پاکستان رینجرز سندھ اور سیکٹر ہیڈ کوارٹرز آئی ایس آئی کراچی کے آفیسرز مزار قائد کی بے حرمتی کے نتیجے میں شدید عوامی ردِعمل سے پیدا شدہ صورت حال سے نمٹنے میں مصروف تھے۔
بیان کے مطابق ’پاکستان رینجرز اور سیکٹر ہیڈ کوارٹرز آئی ایس آئی کراچی کے آفیسرز پر مزارِ قائد کی بے حرمتی پر قانون کے مطابق بروقت کارروائی کے لیے عوام کا شدید دباؤ تھا۔‘
’ان افسران نے شدید عوامی ردِ عمل اور تیزی سے بدلتی ہوئی کشیدہ صورت حال کے مدنظر سندھ پولیس کے طرزِ عمل کو اپنی دانست میں ناکافی اور سُست روی کا شکار پایا۔ اس کشیدہ مگر پُراشتعال صورت حال پر قابو پانے کے لیے اِن افسران نے اپنی حیثیت میں کسی قدر جذباتی ردِعمل کا مظاہرہ کیا۔‘

شیئر: