Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی ثقافت ہی میرے تخلیقی فن کا ذریعہ ہے: ڈیزائنر نورا الشیخ

نورا الشیخ اپنے ڈیزائنز میں جدیدت لانا چاہتی ہیں (فوٹو: سپلائیڈ)
جب نورا الشیخ آٹھ برس کی ہوئیں تو جدید فیشن میں دلچسپی رکھنے والی ان کی والدہ انہیں اپنے ساتھ بازار لے گئیں تاکہ وہ خاندان میں آنے والی ایک شادی کے لیے اپنا لباس خود ڈیزائن کر سکیں۔
نورا الشیخ نے عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جب درزی سے لباس سل کر آیا تو میں بہت پرجوش تھی کیونکہ میں اسے اپنی آنٹی کی شادی میں پہن سکتی تھی۔
یہ آخری لباس نہیں تھا جس کے بارے میں انہوں نے سوچا تھا، نورا الشیخ نے ریاض کے آرٹس اینڈ سکلز انسٹی ٹیوٹ سے گریجویشن کے تین برس بعد 2012 میں فیشن لائن کو اپناتے ہوئے کام کا آغاز کیا۔
نورا الشیخ کو کم عمری ہی سے فیشن، سیکیچنگ، رنگوں اور ٹیکسٹائل کے کام کا شوق تھا۔
 سعودی عرب میں آرٹس اینڈ سکلز انسٹی ٹیوٹ پہلا ادارہ ہے جس نے فیشن ڈیزائننگ کے پروگرام کا آغاز کیا اور یہیں سے نورا الشیخ نے بھی اپنے کام کا آغاز کیا۔
انہوں نے 2009 میں پہلی دفعہ موسم سرما کے لیے عبایا ڈیزائن کیے تھے۔ اسی طرح کئی فیشن کلیکشنز پر کام کرنے کے بعد نورا الشیخ نے اپنے نام کے ساتھ کام کرنا شروع کر دیا۔
جب میں نے اپنے نام کے ساتھ کام شروع کرنے کا فیصلہ کیا تو میں جدید اور خوبصورت کپڑے بنانا چاہتی تھی تاکہ دنیا بھر کی خواتین کو متوجہ کر سکوں۔ اس کے ساتھ میں اب بھی یہ چاہتی تھی کہ میں اپنے ڈیزائن میں سعودی ورثے کو شامل کر سکوں۔‘
انہوں نے کہا کہ سعودی ورثے کے بارے میں جو چیز انہیں متاثر کرتی ہے وہ اس کی ثقافت کے مختلف رنگ ہیں۔

نورا الشیخ کے ڈیزائن مختلف ماڈلز نے استعمال کیے ہیں (فوٹو: سپلائیڈ)

انہوں نے کہا کہ  لوگوں کو اس کا احساس شاید نہ ہو کہ سعودی عرب 13 مختلف خطوں پر مشتمل ہے اور سب کی الگ روایات ہیں۔
درحقیقت فیشن ایک طاقتور آلہ ہے جو ثقافتوں کو جوڑتا ہے۔ اسی وجہ سے نورا الشیخ کا دنیا بھر کی خواتین سے رابطہ ہے۔
نورا الشیخ کے ڈیزائن کیے گئے لباس معروف شخصیات نے زیب تن کیے ہیں۔ ڈچ ماڈل ایمان ھمام نے سعودی عرب کے دورے کے دوران نورا الشیخ کا ڈیزائن کردہ عبایا استعمال کیا تھا۔
انہوں نے 2014 میں فوربز مڈل ایسٹ سے ایوارڈ بھی وصول کیا تھا۔
فیشن ڈیزائنر بننے کا سفر نورا الشیخ کے لیے آسان نہیں تھا۔

نورا الشیخ کو بچپن سے ڈیزائنگ کا شوق تھا (فوٹو: سپلائیڈ)

 ’خطے میں عرب ڈیزائنرز کو چیلنجز کا سامنا ہے۔ یہ چیلنجز ایسے ہیں جیسے لوگوں کے خیالات تبدیل کرنا اور یہ بتانا کہ ہم بھی دیگر بین الاقوامی برانڈز کی طرح ہی بہترین ہیں۔ اور ریٹیلرز کو اس بات پر مائل کرنا کہ ہمیں بھی مارکیٹ میں ایک موقع دیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے اپنے لوگ اگر ہماری مدد نہیں کریں گے تو پھر بین الاقوامی سطح پر بھی کامیابی حاصل کرنا مشکل کام ہے۔
فرانس اور اٹلی جیسے بڑے فیشن کے مراکز کی طرح مشرق وسطیٰ کے پاس فیشن ڈیزائنرز کے لیے کوئی انفراسٹرکچر موجود نہیں۔ اور اسی وجہ سے مقامی ڈیزائنرز بین الاقوامی سطح پر ترقی نہیں کر پاتے۔
فیشن ڈیزائنگ کے لیے تسلیم شدہ سکولوں کی بھی کمی ہے۔

نورا الشیخ کا کہنا ہے کہ ان کو محنت کا صلہ ملا ہے (فوٹو: سپلائیڈ)

نورا الشیخ کا کہنا ہے کہ بیشتر لوگوں کا خیال ہے کہ فیشن ایک پرکشش کاروبار ہے لیکن یہ حقیقت میں ایک محنت طلب کام ہے۔
الشیخ کا کہنا ہے کہ ان کو محنت کا صلہ ملا ہے اور دیگر ڈیزائنرز بھی محنت سے یہ کام کر سکتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اگر آپ ایک اچھا پروڈکٹ لائیں گے تو اس کے لیے آپ کو لوگ ملیں گے۔

شیئر: