Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گلیمرگرل زینت امان کا مظہر خان سے شادی کا فیصلہ درست تھا؟

خوبصورتی کا ایوارڈ جیتنے سے قبل ہی زینت امان ماڈلنگ کی دنیا میں آ چکی تھیں۔ فائل فوٹو: زی نیوز
'میں نے پوچھا چاند سے کہ دیکھا ہے کہیں، میرے یار سا حسین؟
 'چاند نے کہا چاندنی کی قسم، نہیں، نہیں، نہیں!'
یہ گیت فلم 'عبداللہ' کا ہے اور اسے اداکارہ زینت امان پر فلمایا گیا ہے۔ آج بھی ایسے لوگ ہیں جو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ زینت امان جیسی خوبصورتی پھر بالی وڈ میں نظر نہیں آئی۔
چنانچہ گذشتہ دنوں جب بالی وڈ اداکارہ دیپکا پاڈوکون کو سب سے خوبصورت اور گلیمرس اداکارہ قرار دیا گیا تو حُسن کے کچھ مداحوں نے اپنے زمانے کی بلاخیز حسین اداکارہ زینت امان کا بھی ذکر کیا۔ اسی طرح دو ہفتے قبل یکم نومبر کو جب ایشوریہ رائے بچن کے یوم پیدائش پر ان کے حسن کی تعریف ہوئی تو بھی بعض لوگ زینت امان سے ان کا مقابلہ کرتے نظر آئے۔
یعنی فلم انڈسٹری سے دور رہنے کے باوجود زینت امان کا حسن اور گلیمر آج بھی سر چڑھ کر بولتا ہے۔  وہ انڈیا کی شاید پہلی اداکارہ ہیں جو مغربی طرز زندگی میں بہت کم عمری سے ڈھل چکی تھیں اور اس کا اظہار فلموں میں ان کے مغربی طرز کے لباس، انداز و ادا سے بھی ہوتا ہے۔
آج سے ٹھیک 50 سال قبل 1970 میں زینت امان نے اس وقت شہ سرخیوں میں جگہ پائی تھی جب انہیں 'فیمینا مس انڈیا' اور 'مس ایشیا پیسفک انٹرنیشنل' یکے بعد دیگرے دونوں خطاب سے نوازا گیا تھا۔
لیکن 1970 کی دہائی کے اوائل میں جب دیو آنند نے فلم 'ہرے راما ہرے کرشنا' میں انہیں کاسٹ کیا تو وہ راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئیں اور بالی وڈ کو ایک ایسی اداکارہ ملی جس نے فلم کا رخ تبدیل کر دیا۔ اس وقت ایسا لگا کہ 'ہر شحص تیرا نام لے، ہر شخص دیوانہ تیرا' والی کیفیت زینت امان کے تعلق سے پائی جاتی ہے۔
خوبصورتی کا ایوارڈ جیتنے سے قبل ہی زینت امان ماڈلنگ کی دنیا میں آ چکی تھیں اور اس کے بعد انہیں فلموں میں کام کرنے کے آفر بھی آنے لگے۔ سب سے پہلے معروف اداکار دیوآنند کے ساتھ وہ فلم 'دی ایول ودن' میں آئیں، پھر ان کی فلم 'ہلچل' اور ونود کھنہ کے ساتھ 'ہنگامہ' ریلیز ہوئی لیکن یہ فلمیں نہ تو ہلچل مچا سکیں اور نہ ہی ہنگامہ برپا کرسکیں اور باکس آفس پر ناکام رہیں۔

1990 کی دہائی کے بعد زینت امان 10 سال فلموں سے دور رہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

زینت امان کو احساس ہو گیا کہ فلموں میں ان کی جگہ نہیں ہے۔ چنانچہ اسی خیال سے وہ واپس اپنی والدہ کے پاس مالٹا جانے کی تیاری کر رہی تھیں کہ انہیں دیوآنند کی فلم 'ہرے راما ہرے کرشنا' میں ان کی بہن کے کرادر کی پیش کش ہوئی اور انہوں نے قبول کر لی۔
کہا جاتا ہے کہ دیوآنند کو ایک نئی شکل کی تلاش تھی کہ ان کی نگاہ ایک 19 سالہ مست الست لڑکی پر پڑی جو پائپ پی رہی تھی۔ اور انہوں نے فلم میں اپنی بچپن میں کھوئی ہوئی بہن جسبیر کو اسی انداز میں پیش کیا ہے۔ ہر چند کہ اس فلم میں دیوآنند کے ساتھ لیڈ رول میں اداکارہ ممتاز ہیں لیکن زینت امان نے فلم انڈسٹری پر دیر پا اثرات قائم کیے۔
اسی فلم کے لیے انہیں فلم فیئر کی بہترین معاون اداکارہ کے انعام سے نوازا گیا جبکہ بنگالی فلم جرنلسٹ ایسوسی ایشن نے انہیں اسی فلم کے لیے بہترین اداکارہ کے ایوارڈ سے نوازا۔
زینت امان کی زندگی کو رولر کوسٹر سے تعبیر کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔

جب دیو آنند نے فلم 'ہرے راما ہرے کرشنا' میں انہیں کاسٹ کیا تو وہ راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئیں۔ فوٹو: ٹویک انڈیا

19 نومبر سنہ 1951 میں زینت امان ممبئی میں مسلم والد اور ہندو والدہ کے گھر پیدا ہوئیں اس طرح آج ان کا 69 واں یوم پیدائش ہے۔ ان کے والد امان اللہ خان انڈیا کی شاہی ریاست بھوپال کے شاہی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کی والدہ ہندوؤں کی اعلی ترین ذات برہمن سے آئی تھیں جبکہ ان کے والد افغان نسل کے تھے۔
زینت امان کے والد فلموں سے منسلک رہے لیکن جب زینت امان 13 سال کی ہوئیں تو ان کے والد کا انتقال ہو گیا لیکن اس سے قبل ان کے والد اور والدہ کی طلاق ہو چکی تھی۔ وہ زیادہ تر اپنی والدہ کے ساتھ ہی رہیں لیکن والد کے انتقال کے بعد ان کی والدہ نے جرمنی کے ایک شخص سے شادی کر لی۔ اس طرح زینت امان کی کم عمری میں ہی مغربی دنیا سے ہم آہنگی پیدا ہو گئی۔
فلم 'ہرے راما ہرے کرشنا' کی کامیابی کے بعد تقریباً 20 سال تک زینت امان نے بالی وڈ کو اپنے گلیمر سے جگمگائے رکھا۔ وہ بولڈ مناظر کرنے والی پہلی ہیروئن بالکل نہیں تھیں کیونکہ ان سے قبل شرمیلا ٹیگور اور تنوجا وغیرہ نے بولڈ مناظر کیے تھے اور نوتن مغربی طرز کے لباس میں نظر آئی تھیں لیکن جس وقار کے ساتھ زینت امان نے ان لباس اور طرز و انداز کو پیش کیا وہ ان کا ہی خاصہ تھا۔ انہوں نے حسن کی نئی تعریف وضع کی جس میں مشرق و مغرب کا امتزاج تھا۔

زینت امان نے اپنے زمانے کے معروف اداکار سنجے خان سے شادی کی لیکن وہ شادی زیادہ دنوں تک نہ چل سکی۔ فوٹو: نیشنل ہیرالڈ انڈیا

ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کے فلمی کردار کو اس قدر گلیمرائز کیا گیا کہ اس سے ان کی فنکاری مجروح ہو گئی اور جب راج کپور کی فلم 'ستیم شیوم سندرم' آئی تو اس میں ان کے دونوں پہلوؤں کو بخوبی پیش کیا گیا۔
زینت امان نے اپنے زمانے کے معروف اداکار سنجے خان سے شادی کی لیکن وہ شادی زیادہ دنوں تک نہ چل سکی۔ اس کے بعد انہوں نے مظہر خان سے شادی کی لیکن انہیں جلد ہی احساس ہو گیا کہ ان سے غلطی ہوئی ہے۔ اس کا اظہار انہوں نے ٹائمز آف انڈیا کے ساتھ ایک انٹرویو میں بھی کیا اور کہا کہ اس کے باوجود انہوں نے مظہر خان کی موت تک 12 سال اس شادی کو قائم رکھا اور ان سے انہیں دو بیٹے ہوئے۔
سنہ 1980 میں پاکستانی کرکٹ ٹیم نے آصف اقبال کی کپتانی میں انڈیا کا دورہ کیا تھا اور اسی دوران زینت امان کے پاکستانی سٹار آل راؤنڈر عمران خان سے معاشقے کی باتیں انڈیا کے ہر اخبار اور میگزین کی زینت بنتے رہے۔
'ہرے راما ہرے کرشنا' کے بعد ان کی فلم 'یادوں کی بارات' آئی جس نے انہیں ایک اداکارہ کے طور پر مزید مستحکم کیا۔ اس کے بعد انہوں نے متواتر کئی کامیاب فلمیں دیں جن میں منوج کمار کے ساتھ 'روٹی کپڑا اور مکان'، راجیش کھنہ کے ساتھ 'اجنبی'، دیو آنند کے ساتھ 'وارنٹ'، ششی کپور کے ساتھ 'چوری میرا کام'، دھرمیندر کے ساتھ 'دھرم ویر'، اور امیتابھ بچن کے ساتھ 'دی گریٹ گیمبلر' شامل ہیں۔

 امیتابھ بچن کے ساتھ ان کی فلم 'ڈان' آئی جو کلٹ فلم ثابت ہوئی۔ فوٹو: پونے مرر

سنہ 1978 میں راج کپور کی فلم 'ستیم شیوم سندرم' آئی اور اس نے ان کی اداکاری کا سکہ جما دیا۔ اس میں انہوں نے ایک ایسی خاتون کا کردار ادا کیا تھا جس کا چہرہ ایک طرف سے جھلسا اور دوسری طرف سے انتہائی حسین دکھایا گیا تھا اور اس فلم میں ان کے روپ والے حصے پر اداکار ششی کپور فریفتہ ہو جاتے ہیں۔ اس فلم میں اداکاری کے لیے انہیں بہترین اداکارہ کے لیے نامزد کیا گیا۔
اسی سال امیتابھ بچن کے ساتھ ان کی فلم 'ڈان' آئی جو کلٹ فلم ثابت ہوئی۔ پھر سنہ 1980 میں سنجے خان کے ساتھ ان کی فلم 'عبداللہ' آئی اور یکے بعد دیگرے پانچ فلمیں متواتر ہٹ ہوئیں جن میں فیروز خان کی فلم 'قربانی'، 'دوستانہ' اور 'انصاف کا ترازو' اہم تھیں۔

سنہ 1978 میں راج کپور کی فلم 'ستیم شیوم سندرم' آئی اور اس نے ان کی اداکاری کا سکہ جما دیا۔ فوٹو: شیمارو

'ڈان' کی کامیابی کے بعد امیتابھ بچن کے ساتھ وہ 'لاوارث'، 'مہان' اور 'پکار' میں نظر آئیں۔ 'لاوارث' بہت کامیاب رہی اور 'کب کے بچھڑے ہوئے ہم آج کہاں آ کے ملے' گیت بہت مقبول ہوا۔
اسی طرح فلم 'قربانی' کا گیت 'آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے' بھی بہت مقبول ہوا جسے پاکستانی گلوکارہ نازیہ حسن نے آواز دی تھی۔ جس طرح سے انہوں نے اس گیت کو ادا کیا اس نے اس وقت کے نوجوانوں میں ہلچل پیدا کر دی۔
زینت امان آج بھی فلموں میں کام کر رہی ہیں اور گذشتہ سال وہ فلم 'پانی پت' میں سکینہ کے کردار میں نظر آئیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ 1990 کی دہائی کے بعد وہ 10 سال فلموں سے دور رہیں اور اسی کے ساتھ فلم انڈسٹری میں اپنے حسن اور ادا کی چاندنی بکھیرنے والی اداکارہ کا سورج غروب ہو گیا۔

شیئر: