Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فلسطینی کی وائٹ ہاوس میں تقرری سے اسرائیل میں تنازع

جوبائیڈن نے وعدہ کیا تھا کہ مسلمانوں پر عائد پابندیاں منسوخ کر دیں گے۔(فوٹو ٹوئٹر)
امریکہ کے نو منتخب صدر جو بائیڈن کی جانب سے وائٹ ہاؤس کے ایک اہم عہدے پر فلسطینی امریکی کی تقرری سے اسرائیل میں سیاسی تنازع بھڑک اٹھا۔
عرب نیوز کے مطابق جو بائیڈن نے پیر کے روز اعلان کیا تھا کہ ریما ڈوڈن قانون سازی امور سے متعلق ان کی دو رکنی ٹیم میں ڈپٹی ڈائریکٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں گی۔
یہ ٹیم امریکی صدر  بائیڈن کی پالیسیوں کے تعین میں مدد کرے گی۔ اس ٹیم کی دوسری رکن شوانزا گوف ہیں جو افریقی امریکی ہیں۔
ریما ڈوڈون کا تعلق کیلیفورنیا سے ہے اور وہ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا ، بارکلے اور یونیورسٹی آف ایلنوائس سے فارغ التحصیل ہیں۔

 صدر جو بائیڈن اور نائب صدر کامیلا ہیرس جرأت مندانہ ایجنڈہ رکھتے ہیں۔(فوٹو عرب نیوز)

جو بائیڈن نے اپنی انتخابی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ وہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے مسلمانوں پر عائد کی جانے والی پابندیوں کو منسوخ کر دیں گے اور عرب امریکیوں کے حقوق کو تسلیم کریں گے۔
بائیڈن کے وائٹ ہاؤس چیف آف سٹاف رون کلین نے بتایا ہے کہ منتخب صدر جو بائیڈن اور نائب صدر کامیلا ہیرس جرأت مندانہ ایجنڈہ رکھتے ہیں جو ہماری قوم کی تعمیر کرے گا اور اسے پہلے سے بہتر ترقی دے گا۔
ہماری ٹیم اس ایجنڈے کے نفاد کے لئے صدر اور نائب صدر کے ساتھ مل کر کام کرے گی اور امریکی خاندانوں کے لئے نتائج بھی سامنے لائے گی۔

ریما ڈوڈون کیلیفورنیا یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف ایلنوائس سے فارغ التحصیل ہیں۔(فوٹو ٹوئٹر)

اسرائیل نواز گروپوں اور تنظیموں نے ریما ڈوڈن کی تقرری پر تنقید کی ہے اور ان پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ خود کش بم حملوں کا جواز پیش کرنے کی کوشش کرتی رہی ہیں۔
اس الزام کو تقویت دینے کے لئے ریما  ڈوڈن کی جانب سے ماضی میں دیئے گئے ایک بیان کے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جا رہا ہے۔
امریکہ میں سرکاری عہدے پر مقرر کئے جانے والے فلسطینیوں کے بارے میں عموماً اسی قسم کی تنقید کی جاتی ہے اور ایسی کسی بھی تقرری کو فلسطینی حقوق کی حمایت سمجھا جاتا ہے۔

ایسی کسی تقرری کو فلسطینی حقوق کی حمایت سمجھا جاتا ہے۔(فوٹو ٹوئٹر)

اسرائیلی اخبار یروشلم پوسٹ نے ریما کے2002 میں دیئے گئے مبینہ بیان کو شہ سرخی کے ساتھ شائع کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے کیلیفورنیا میں ایک اجتماع میں کہا تھا کہ خود کش دھماکے، مایوسی کا شکار لوگوں کا آخری حربہ ہوتے ہیں۔
ریما کے بارے میں یہ بھی کہا گیا کہ انہوں نے فلسطینیوں کی اراضی پر اسرائیلی قبضے کے خلاف نکالی گئی’’بی ڈی ایس‘ یعنی ’’بائیکاٹ، انحطاط اور پابندی‘‘ کے زیر عنوان احتجاجی ریلی میں بھی شرکت کی تھی۔
واضح رہے کہ امریکہ کی 26 ریاستوں نے ’’بی ڈی ایس‘‘ کی حمایت کو غیر قانونی اور قابل سزا قرار دینے کا قانون منظورکر رکھا ہے۔
عرب مخالف انتہاپسند سارہ گیلر کا ایک بیان ویب سائٹ پر شائع کیا گیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ یہ پیشگوئی پہلے ہی کر دی گئی تھی کہ طاقتور بائیڈن انتظامیہ میں اسرائیل مخالف بائیں بازو کا کردار غالب ہوگا۔
دوسری جانب معروف عرب، امریکی اور سیاستداں ریما کے دفاع میں یک زباں ہو گئے ہیں۔
ان کی حمایت اور تقرری کو خوش آئند قرار دینے والوں میں امریکن ٹاسک فورس برائے فلسطین کے بانی  زیاد اصالی، عرب امریکن میڈیا آرگنائزیشن کے صدر وارن ڈیوڈ اور سینیٹر رچرڈ  بلو مینتھل شامل ہیں۔
عرب نیوز کی جانب سے اس پر مزید تبصرہ کرنے کی درخواست پر ریما ڈوڈن یا  ڈربن آفس کی جانب سے جواب موصول نہیں ہوا۔
 

شیئر: