Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا اپوزیشن کے استعفوں سے آئینی طور پر اسمبلی کو فرق پڑے گا؟

’پاکستان کی تاریخ میں ایسے کبھی نہیں ہوا کہ اجتماعی استعفے سامنے آئے ہوں۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)
اگست 2014 میں پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی قیادت میں انتخابی دھاندلی کے خلاف لانگ مارچ کرتے ہوئے اسلام آباد پہنچی تو حکومت پر دباو بڑھانے کے لیے قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا۔ عمران خان کی ہدایت پر شاہ محمود قریشی نے تمام  ارکان کے استعفے اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرا دیے۔
سپیکر قومی اسمبلی نے تحریک انصاف کے ارکان کو پیغام بھیجا کہ وہ فرداً فرداً آ کر اپنے استعفے کی تصدیق کریں۔ لیکن کوئی بھی رکن سپیکر کے پاس پیش نہ ہوا۔ چند دن گزرے کہ جاوید ہاشمی کو پارٹی قیادت سے اختلافات ہوئے۔ وہ کنٹینر سے اترے، قومی اسمبلی پہنچے اور دھواں دھار تقریر کی۔ انھوں نے اسمبلی سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا اور سپیکر چیمبر جا کر اپنے استعفیٰ کی تصدیق کی اور ضمنی انتخابات لڑنے ملتان چلے گئے۔

 

اب پاکستان تحریک انصاف حکومت میں ہے اور مسلم لیگ ن اور دیگر جماعتیں اپوزیشن کا حصہ ہیں۔ ان جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اسمبلیوں سے مستعفی ہوں گے۔ تمام جماعتوں نے ارکان کو اپنے استعفے اپنے اپنے پارٹی سربراہ کے پاس جمع کرانے کا کہہ دیا ہے جس کے بعد متعدد ارکان کے استعفے سامنے آ رہے ہیں جن میں اکثریت ن لیگی ارکان کی ہے۔
قومی اسمبلی کے سابق ایڈیشنل سیکرٹری طاہر حنفی کے مطابق 'پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں استعفوں کی سیاست کا مقصد گیلریوں سے کھیلنا اور حکومت پر دباؤ ڈالنا ہوتا ہے۔ اس وقت اپوزیشن جماعتیں اپنی اپنی صفوں سے وفادار ساتھی تلاش کر رہی ہیں کہ کون کون پارٹی قیادت کے پاس استعفیٰ جمع کراتا ہے۔'
ان کے مطابق 'بظاہر لگ رہا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں مستعفی ہو رہی ہیں لیکن پارلیمانی قواعد کی روشنی میں استعفیٰ پارٹی قیادت کے پاس نہیں بلکہ متعلقہ اسمبلی کے سپیکر کے پاس جمع کرانا ہوتا ہے جو مستعفی رکن سے تصدیق کرنے کے بعد اس نے استعفیٰ کسی دباؤ کے تحت تو نہیں دیا پھر ہی قبول کرسکتا ہے۔'
انھوں نے کہا کہ 'اگر اجتماعی طور پر استعفے سپیکر کے پاس پہنچ بھی گئے تو سپیکر فرداً فرداً تصدیق کے پابند ہیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ کوئی بھی استعفی بھیج دے تو اس کا استعفی منظور کر لیا جائے۔ اپوزیشن کے استعفوں سے آئینی طور پر اسمبلی کو تو کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن جہاں سے 2014 میں استعفے منظور نہ کرنے کا کہا گیا تھا اس بار بھی وہیں سے ایسا ہی پیغام آئے گا۔'

آئین کے مطابق کسی بھی رکن کا استعفیٰ سپیکر کے پاس پہنچنا چاہیے جس کے بعد تصدیق کرکے منظور کیا جاتا ہے۔ فوٹو: قومی اسمبلی ٹوئٹر

2014 میں پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے استعفے جمع کرائے جانے کے بعد حکومت کی جانب سے مذاکرات کے ذریعے استعفے واپس لینے کا کہا جاتا رہا۔ اس کے باوجود کہ حکومتی اتحادی مولانا فضل الرحمان اور ایم کیو ایم کی جانب سے سپیکر ایاز صادق پر استعفے منظور کرنے کے لیے دباو بھی ڈالا گیا۔
دوسری جانب تحریک انصاف کی حکومت کی بالخصوص عمران خان بارہا یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر اپوزیشن مستعفی ہوتی ہے تو خالی ہونے والے حلقوں میں ضمنی انتخابات کرا دیے جائیں گے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت کے لیے اتنے بڑے پیمانے پر ضمنی انتخابات کرانا ممکن ہوں گے۔
اگر اس وقت پاکستان کی قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی میں نمبر گیم کو سامنے رکھا جائے تو  پی ڈی ایم کے تمام ارکان کے مستعفی ہونے کی صورت میں کل 1090 نشستوں میں سے 494 نشستیں خالی ہونے کا امکان ہے۔
اس وقت تمام اسمبلیوں میں سے پی ڈی ایم کی جماعتوں میں سے پاکستان مسلم لیگ ن 255 نشستوں کے ساتھ سب سے بڑی جماعت ہے، پیپلز پارٹی کے پاس 163جبکہ جے یو آئی کی 42 نشستیں ہیں۔ اے این پی 17، بی این پی مینگل 14 ، پختون خواہ ملی عوامی پارٹی ایک جبکہ پی ٹی ایم کی بھی دو نشستیں ہیں۔
پیپلز پارٹی کے سندھ اسمبلی اور پی ٹی ایم کی جانب سے قومی اسمبلی کی دونوں نشستوں سے مستعفی ہونے کا تاحال فیصلہ سامنے نہیں آیا۔
ماضی میں اتنی بڑی تعداد میں اسمبلیوں سے استعفی کبھی سامنے نہیں آئے۔ 2007 میں اپوزیشن اتحاد اے پی ڈی ایم کی جانب سے قومی اسمبلی میں 86 استعفے سپیکر قومی اسمبلی کو پیش کیے گئے تھے جبکہ پنجاب میں چھیالیس، بلوچستان میں پچیس اور سندھ میں سات اراکینِ صوبائی اسمبلی نے استعفے دیے تھے۔

2007 میں اپوزیشن اتحاد  پی ڈی ایم کی جانب سے قومی اسمبلی میں 86 استعفے سپیکر قومی اسمبلی کو پیش کیے گئے تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اسی طرح مختلف ادوار میں صوبائی اسمبلیوں سے بھی اجتماعی استعفے سامنے آتے رہے ہیں، لیکن الیکشن کمیشن حکام کے مطابق وہ استعفے عموما ایسے وقت میں دیے جاتے تھے جب عام انتخابات میں بہت قلیل وقت باقی ہوتا تھا۔ جیسے 2007 میں اے پی پی ڈی ایم کے استعفے دو اکتوبر کو دیے گئے جبکہ 15 نومبر کو اسمبلی کی مدت پوری ہو رہی تھی۔ اس طرح ضمنی انتخابات کے لیے آئینی وقت 60 دن بھی باقی نہیں تھے۔
الیکشن کمیشن حکام کے مطابق 'پاکستان کی تاریخ میں ایسے کبھی نہیں ہوا کہ اجتماعی استعفے سامنے آئے ہوں اور ان پر ضمنی انتخابات کرائے گئے ہوں۔ آئینی طور پر تو الیکشن کمیشن پابند ہے کہ خالی ہونے والی کسی بھی نشست پر انتخابات کرائے تاہم اس طرح کے استعفے آئینی سے زیادہ سیاسی مسئلہ بن جاتے ہیں۔ اگر اپوزیشن اسمبلیوں سے استعفے دے کر ضمنی انتخابات کا بائیکاٹ کر دے تو پھر عالمی سطح پر نہ صرف اتخابات بلکہ اسمبلیوں کی ساکھ پر بھی سوال اٹھنے لگتے ہیں۔'

شیئر:

متعلقہ خبریں