Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ماضی میں اپوزیشن کے جلسوں کو کیسے روکا گیا اور اس بار نیا کیا ہے؟

پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر ایک بار پھر احتجاجی سیاست زور پکڑ رہی ہے (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر ایک مرتبہ پھر احتجاجی سیاست زور پکڑ رہی ہے اور اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد ’پی ڈی ایم اپنی تحریک کے پہلے مرحلے کا آخری جلسہ مینار پاکستان پر کرنے جا رہا ہے۔
حکومت نے مینار پاکستان میں جلسے کی اجازت نہیں دی ہے اور اعلان کیا ہے کہ جلسہ گاہ میں کرسیاں، ساؤنڈ سسٹم، ٹرانسپورٹ اور دیگر سہولیات فراہم کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔
ماضی میں جہاں حکومتیں احتجاج کو روکنے کے لیے سیاسی قیادت کو نظر بند کر کے راستوں میں رکاوٹیں کھڑی کر کے سیاسی کارکنوں کی گرفتاریاں عمل میں لا کر احتجاج روکتی تھیں، وہیں سیاسی جلسوں کو ناکام بنانے کے لیے کبھی انوکھے، منفرد اور خوفناک طریقے بھی آزمائے جاتے تھے۔
اب کی بار قیادت اگرچہ مولانا فضل الرحمان ہی کر رہے ہیں لیکن اس احتجاجی تحریک کا اصل چہرہ مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری ہیں۔
موجودہ حکومت بھی اس جلسے کو ناکام بنانے کے لیے کئینئے رجحانات یا ٹرینڈز متعارف کروا رہی ہے۔ حکومت کی جانب سے مینار پاکستان میں جلسے کی اجازت نہیں دی گئی ہے اور وزیر اعظم کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ جلسے کے منتظمین، کرسیاں اور ساؤنڈ سسٹم فراہم کرنے والوں کو گرفتار کیا جائے گا۔
ڈی جے بٹ سمیت لاہور میں مریم نواز کی ریلیوں میں استقبالیہ کیمپ لگانے والے سینکڑوں سیاسی رہنماوں اور کارکنان کے خلاف مقدمات درج کر لیے گئے ہیں۔

کراچی کے نشتر پارک اور لاہور کے موچی دروازے کے میدان کو متعدد مرتبہ پانی سے بھرا گیا (فوٹو: ٹوئٹر)

صرف یہی نہیں بلکہ لاہور کی ریلی کے دوران مریم نواز کو کھانا کھلانے والے لکشمی چوک کے مشہور بٹ کڑاہی ہوٹل کے مالکان کے خلاف بھی ایف آئی درج کی گئی ہے جو ایک منفرد مثال ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق دفعہ 144، 16 ایم پی او اور اس طرح کے دیگر قوانین کے ذریعے احتجاج روکنے اور سیاسی رہنماؤں کی نظر بندی کے باوجود جب سیاسی جماعتیں جلسے کرنے سے باز نہیں آتی تھیں تو پاکستان میں ان جلسوں کو روکنے کے لیے سب سے پہلا حربہ جلسہ گاہ میں پانی چھوڑنا ہی ہوتا تھا۔
کراچی کے نشتر پارک اور لاہور کے موچی دروازے کے میدان کو متعدد مرتبہ پانی سے بھرا گیا ہے۔
سینیئر صحافی و سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر مہدی حسن اپنی یادداشتوں کو تازہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’سیاسی جلسوں کو ناکام بنانے کے لیے پانی چھوڑ دینا تو بہت ہی پرانا حربہ ہے۔ اس کو روکا بھی گیا تھا۔ 1970 میں ذوالفقار علی بھٹو نے موچی گیٹ پر پہلا جلسہ کیا تو اس سے دو دن پہلے ڈاکٹر مبشر حسن اپنے ایک قابل اعتماد ترکھان کو لے کر گئے جس نے موچی گیٹ کو پانی دینے والے چھ انچ پائپ میں پانچ چھ فٹ لمبی لکڑی تراش کر پھنسا دی تھی جس سے پانی نہیں دیا جا سکا تھا۔
انھوں نے بتایا کہ ’بھٹو ہی کے ناصر باغ کے جلسے میں ایک بار حکومت نے بجلی کے ننگے تار ڈال دیے تھے۔‘
انھوں نے کہا کہ اس سے قبل ’ایوب کے مارشل لاء کے دور میں ڈیڑھ سال کی جدوجہد میں روزانہ کی بنیاد پر جلوس نکلتے اور پولیس اور رینجرز کے ساتھ جھڑپ ہوتی تھی۔ اس عرصے میں 243 لوگ ہلاک جبکہ 800 کے قریب گرفتار ہوئے تھے۔‘

موجودہ  احتجاجی مہم کی قیادت تو  فضل الرحمان کر رہے ہیں لیکن تحریک کا اصل چہرہ مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری ہیں۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

انھوں نے بتایا کہ ’جب ایوب نے مارشل لاء لگایا تو کراچی سے کچھ ایسے طلبہ کو کراچی بدر کیا گیا تھا جو مارشل لاء کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ ان میں معراج محمد خان، فتح یار علی خان، شہنشاہ حسین اور کچھ اور انقلابی طلبہ شامل تھے۔ جب وہ ساہیوال ریلوے سٹیشن پرپہنچے تو انھیں ٹرین سے اتار کر کہا گیا کہ ان کے لاہور جانے پر بھی پابندی ہے۔ کیونکہ حکومت کو خدشہ تھا کہ وہ لاہور میں بھی احتجاج کریں گے۔ میں نے ساہیوال 12 دن تک ان کی میزبانی کی تھی۔ ہم نے باقی سفر چھپ کر موٹرسائیکلوں پر طے کیا تھا۔‘
سینیئر صحافی و تجزیہ کار ضیاء الدین نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ایوب دور کے بعد بھٹو دور میں بھی سیاسی مخالفین کے جلسے روکنے کے لیے سخت اقدامات کیے جاتے رہے ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی، جو اس وقت (نیپ) تھی، کے لیاقت باغ میں ہونے والے جلسے کو ناکام بنانے کے لیے براہ راست فائرنگ کی گئی جس سے بہت سے لوگ ہلاک اور زخمی ہوئے۔ اس حوالے سے مشہور مقدمہ بھی راولپنڈی کی عدالتوں میں چلتا رہا ہے۔‘
سینیئر صحافی سی آر شمسی نے اردو نیوز کے ساتھ گفتگو میں بتایا کہ ’1974 میں جب ذوالفقار علی بھٹو اور مصطفیٰ کھر کے درمیان اختلافات ہوئے تو لاہور میں تاج پورہ میں ہونے والے ایک انتخابی جلسے میں سانپ چھوڑ دیے گئے۔ جس سے بھگدڑ مچنے سے متعدد لوگ ہلاک ہوگئے تھے۔‘
ان کے مطابق اس سے قبل ’ملتان میں بھٹو کے جلسے پر حملہ ہوا تھا جس میں کارکن زخمی ہوئے اور جلسہ درہم برہم ہو گیا تھا۔

ڈی جے بٹ سمیت لاہور میں ریلیوں میں استقبالیہ کیمپ لگانے والے سینکڑوں رہنماوں اور کارکنان کے خلاف مقدمات درج کر لیے گئے ہیں۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

انھوں نے بتایا کہ ’کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ حکومت کے روکنے کے باوجود سیاسی رہنما انتظامیہ کو چکما دے کر اپنی منزل تک پہنچے۔ بے نظیر بھٹو نواز شریف کے خلاف لانگ مارچ کرنے کا اعلان کیا تو انھیں گھر میں نظر بند کر دیا گیا لیکن وہ راولپنڈی کے لیاقت باغ کے قریب پہنچنے میں کامیاب ہوگئی تھیں جہاں انھیں گرفتار کر لیا تھا۔‘
ماضی قریب میں بھی دیکھا جائے تو پرویز مشرف دور میں جب معزول ججوں کو ان کی رہائش گاہوں پر نظر بند کر دیا گیا تو وکلا، سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں کے کارکن ججز کالونی جانے کی کوشش کرتے تو پولیس انھیں روکتی تھی۔ سردیوں کے موسم میں پولیس نے واٹر کینن منگوا کر مستقل کھڑا کر دیا تو جس سے احتجاج کرنے والوں پر ٹھنڈا پانی پھینکا جاتا اور ساتھ ہی آنسو گیس کی شیلنگ کی جاتی تھی۔ فضا میں نمی اور ٹھنڈک کی وجہ سے آنسو گیس کا اثر دگنا ہو جاتا تھا۔
2009 میں ججز بحالی کے لیے وکلا تنظیموں اور سیاسی جماعتوں نے لاہور سے نواز شریف کی قیادت میں لانگ مارچ کا اعلان کیا تو اس وقت کی پیپلز پارٹی کی پنجاب حکومت نے لاہور میں بسنت منانے کا اعلان کر دیا تاکہ لانگ مارچ میں عوامی دلچسپی کو کم کیا جا سکے۔

شیئر: