Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حیدر علیوف جنھیں جدید آذربائیجان کا بانی بھی کہا جاتا ہے

ایک ایسا رہنما جس نےعوام کی محبت حاصل کر کے ان کے دل جیت لیے۔ (فوٹو ٹوئٹر)
حیدرعلیوف آذربائیجان کے قومی رہنما  مانے جاتے ہیں۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی قوم کی خوشحالی کے لیے وقف کر رکھی تھی۔
سعودی عرب میں آذربائیجان کے سفیر شاہین عبدالعیوف نے عرب نیوز میں ایک مضمون لکھا ہے جس میں انہوں نے بتایا ہے کہ حیدر علیوف کی یاد میں وہاں کے عوام  12 دسمبر کو خاص دن مناتے ہیں۔17 سال قبل وفات پاجانے والے حیدر علیوف آذربائیجان کی تاریخ میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔

10مئی 1923 کو آذربائیجان کے علاقے نیکچیون میں پیدا ہونے والے حیدر علیوف نے سوویت یونین کے دور میں آذربائیجان کی آزادی کے لیے جدوجہد کی۔
ایک باصلاحیت سیاستدان اور عوامی شخصیت   حیدر علیوف نے انتہائی مشکل اوقات میں ملک کی قیادت سنبھالنے پر اپنے عوام کا اعتماد حاصل کرنے اور مضبوط معاشی ترقی والے ملک کی بنیاد رکھنے والے قومی رہنما کی حیثیت سےتمام تر صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔
آزاد آذربائیجان کے صدر کی حیثیت سےخدمات پیش کرنے والے حیدر علیوف کو جدید آذربائیجان کا بانی  بھی کہا جاتا ہے۔

انہوں نے آذربائیجان کا مستقبل طے کرنے کے لیے  ملک کو جدیددور میں لے جانے کے لیے سنگ میل رکھا۔ان کے نظریات اور کارآمد کارنامے قوم کو ہمیشہ یاد رہیں گے۔
حیدرعلیوف1964 میں آذربائیجان کی کابینہ کے وزراء کے تحت ریاستی سیکیورٹی  کمیٹی کے نائب چیئرمین بنے  اور آذربائیجان کی کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے صدر منتخب ہونے کے بعدجولائی 1969 میں جمہوریہ آذربائیجان کے صدر بن گئے۔
علیوف دسمبر 1982 میں سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کی سنٹرل کمیٹی کے پولیٹیکل بیورو کے رکن منتخب ہوئے اور سوویت یونین کے وزراء کی کابینہ کے پہلے نائب چیئرمین کے عہدے پر مقرر ہونے کے بعد  یوایس ایس آر کے  رہنماؤں میں سے ایک بن گئے۔

سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے پولیٹیکل بیورو اور سیکریٹری جنرل میخائل گورباچوف کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے  علیوف نے اکتوبر 1987 میں صدارت کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
20 جنوری 1990 کو  باکو میں سوویت فوجیوں کی وجہ سے  ہونے والے سانحے کے بعد انہوں نے آذربائیجان کے عوام کے ساتھ ہونے والے جرم کے منتظمین اور پھانسی دینے والوں کے لئے سزا کا مطالبہ کیا۔
سوویت یونین کی قیادت کی منافقانہ پالیسی اور ناگورنو کاراباخ میں ہونے  والے تنازع کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے  انہوں نے جولائی 1991 میں سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی چھوڑ دی۔
آذربائیجان لوٹنے کے بعد  وہ  باکو  اور پھر اپنے آبائی علاقے میں مقیم رہے  اور اسی سال آذربائیجان کے سپریم سوویت کے نائب کے طور پر منتخب ہوئے اور نیکچیون کے خود مختار جمہوریہ کے سپریم کورٹ کے چیئرمین اور سپریم کورٹ کے نائب چیئرمین کے عہدے پر فائز رہے۔
مئی تا جون 1993 میں حکومتی بحران کے نتیجے میں  آذربائیجان کے عوام چاہتے تھے کہ  حیدر علیوف اقتدار میں  واپس آجائیں اور وہ آذربائیجان کی سپریم سوویت کے چیئرمین منتخب ہوئے۔
 وہ 24 جولائی 1993 کو آذربائیجان کے صدر کی حیثیت سے اقتدار میں آئے۔ اسے پارلیمنٹ  جسے  ملی مجلس کے طور پر جانا جاتا ہے نے منظور کیا۔1998 میں وہ  دوبارہ صدر  منتخب ہوگئے۔
ان کے عہد صدارت میں خارجہ پالیسی دوبارہ تشکیل دی گئی  اور  اسے متوازن پالیسی میں تبدیل کیا گیا۔
انہوں نے  آذربائیجان اور دیگر ممالک کے مابین دوطرفہ تعلقات کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی تنظیموں بالخصوص اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) اور عرب ممالک کے ساتھ باہمی تعلقات کو مضبوط بنانا شروع کیا۔
1994 میں ان کے دورہ  سعودی عرب  سے دوطرفہ تعلقات کی ترقی کے نئے مواقع سامنے آئے اور دونوں ممالک نے معیشت ، تجارت ، سرمایہ کاری ، ٹیکنالوجی ، ثقافت ، نوجوانوں اور کھیلوں سے متعلق معاہدے  کیے۔
عوام کے مطالبے سے اقتدار میں واپس آنے کے بعد ہی  وہاں سیاسی استحکام قائم ہوا۔ناگورنوکاراباخ تنازع میں  جمہوریہ آذربائیجان  اور جمہوریہ آرمینیا کے مابین  فائر بندی کی گئی۔
بڑے پیمانے پر معاشی اصلاحات کا آغاز ہوا اور ملک کی  مالی صورتحال مستحکم ہوگئی۔ معیشت کی طرف راغب سرمایہ کاری کے حجم میں  ہرسال اضافہ ہوا اور لوگوں کی فلاح و بہبود کا ایک بہتر معیار  قائم کیا۔
حیدر  علیوف نے1993 میں اقتدار میں واپس آنے کے بعد  تیل وگیس کی صنعت کو بحال کرنے سے متعلق اقدامات شروع کردیئے جو  آذربائیجان کی معیشت کا انجن سمجھا جاتا ہے۔
1994 میں آذربائیجان کے لیےنئی حکمت عملی سے عالمی معیشت  میں  فیصلہ کن پالیسی کی وجہ سے  بیرونی سرمایہ کاری کو راغب کیا۔

باکو میں 20 ستمبر 1994 کو  عالمی اقتصادی نظام میں آذربائیجان کاالحاق اور  ملک کی توانائی کی حفاظت "صدی کا معاہدہ " پر دستخط کئے گئے۔
"صدی کے معاہدے" کے تحت  سعودی عرب کی کمپنی سمیت 8 ممالک کی 11 کمپنیاں اس کی شیئر ہولڈر بن گئیں۔
1996 میں باکو-نوروروسیسک اور 1999 باکو-سپرسا  آئل پائپ لائنوں  کو   باکو تبلیسی جیہان کی مرکزی برآمدی آئل پائپ لائن کی تعمیر اور معاہدے پر دستخط سے آذربائیجان کے تیل کو عالمی منڈی میں برآمد کیا گیا۔
باکو تبلیسی جیہان مرکزی برآمد کی تیل پائپ لائن حیدر علیوف کی ایک  بڑی کامیابی ہے۔
آذربائیجان گیس کی برآمد کو یقینی بنانے کے لئے حیدر علیوف کے اقدام پر باکو تبلیسی۔ایرزورم گیس پائپ لائن کی تعمیر کی گئی۔
بنیادی ڈھانچے کی ترقی سماجی و اقتصادی پالیسی کی ایک اہم سمت ہے۔

قومی رہنما حیدر علیوف کا 12 دسمبر 2003 کو انتقال ہوگیا  لیکن ان کی یاد آج بھی منائی جاتی ہے۔ وہ ایک ایسے رہنما تھے جنہوں نے اپنے عزائم،  محنت  اور منصوبوں  کے ذریعہ آذربائیجان کے عوام کے دل جیت لیے اور ان کی محبت  حاصل کی۔
حیدر علیوف عوام کے دل اور ان کی یادوں  میں ہمیشہ رہیں گے کیونکہ یہاں کے عوام کی زندگی میں مثبت تبدیلیاں  قومی رہنما کے نام اور اس کی دور اندیشی پالیسیوں سے براہ راست  وابستہ ہیں۔
شاہین عبدالعیوف  نے بتایا ہے کہ  آذربائیجان کے عوام اور پوری دنیا میں بسنے والے تمام آذربائیجانین ہر سال   اپنے قومی رہنما  کی یاد مناتے ہیں۔
حیدر علیوف ہمارے دلوں میں  زندہ ہے اور ابد تک زندہ رہے گا کیونکہ  ایسا رہنما عوام  کے ساتھ مضبوط بندھن سے وابستہ رہتاہے ۔
صدر الہام علیئیف نے ان کے نظریات اور دانشمندانہ پالیسیوں کو کامیابی کے ساتھ جاری رکھا۔ اس دور اندیشی پالیسی کے تحت ، آذربائیجان تیزی سے ترقی کر رہا ہے اور اپنی ساکھ بنا رہا ہے۔
آذربائیجان کے موجودہ صدرالہام علیوف نے اپنے رہنما کی دانشمندانہ پالیسیوں کے نتیجے میں ناگورنو-کاراباخ  تنازع پر مذاکرات کا عمل مکمل کیا ہے جسے آذربائیجان  کی علاقائی سالمیت کو بحال کرنے میں اہم کردار سمجھا جاتا ہے۔
 
فوٹوز بشکریہ ٹوئٹر
 

شیئر: