Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کہیں آپ ’غلط طریقے‘ سے تو سانس نہیں لے رہے؟

برطانوی اخبار دی گارڈین میں چھپنے والی ایک رپورٹ کے مطابق بہت سے لوگ اپنی زندگی یہ سمجھتے ہوئے گزار رہے ہیں کہ وہ سانس لینے کا صحیح طریقہ جانتے ہیں لیکن انہیں تب حیرت ہوئی جب پتہ چلا کہ وہ اپنے پھیپھڑوں کے نچلے حصے میں ہوا نہیں پہنچا رہے تھے۔
یوگا کے ایک انسٹرکٹر کا کہنا ہے کہ وہ دوسروں کو تربیت دینے کے ساتھ ساتھ روزمرہ زندگی میں لوگوں کا مشاہدہ بھی کرتے ہیں۔ بقول ان کے انہیں کوئی بھی صحیح طریقے سے سانس لیتا نظر نہیں آتا یعنی اس طرح کہ پیٹ پھیلے اور سینے کے اوپر کا حصہ اٹھ جائے اور پھر ہموار ہوتا ہوا تھوڑا سا پیچھے جائے۔
ان کا کہنا ہے کہ بچوں کے مشاہدے میں یہ بات سامنے آئی کہ تین سال کی عمر تک وہ درست طور پر سانس لیتے ہیں لیکن اس کے بعد اکثروبیشتر بھول جاتے ہیں کہ سانس لینے کا درست طریقہ کیا ہے۔
مغرب میں پچھلے کچھ سالوں سے صحت عامہ کے شعبے میں درست طریقے سے سانس لینے کے معاملے میں دلچسپی بڑھی ہے، جبکہ بدھ مت اور ہندو مت سے وابستہ افراد کو طویل عرصے سے اچھی طرح سانس لینے کے فوائد معلوم ہیں اور اسی کو تبدیل تنفس کی سانس کہا جاتا ہے۔ یہ طریقہ 70 کی دہائی میں سامنے آیا تھا۔
سانس لینے کے دوسرے طریقے بھی  ہیں جن میں ’بٹیکو‘ اور ’ہولوٹروپک‘ شامل ہیں۔ اسی طرح  یوگا میں بھی سانس لینے کے دیگر طریقے موجود ہیں۔
سانس لینے کی مشقیں مدافعتی فنکشن، نیند، عمل انہضام، سانس کی بیماریاں، بلڈ پریشر اور اضطراب کو کم کرکے ہماری جسمانی اور دماغی صحت میں بہتری لا سکتی ہیں۔
ان دعوؤں کے ضمن میں بہت کم تحقیق  کی گئی ہے حالانکہ ’ڈایافرامٹک سانس لینے‘ کا تصور بہت مشہور ہے جس کا مطلب ہے کہ پھیپھڑوں میں زیادہ سے زیادہ ہوا بھرنا اور اس عمل میں سینے اور پیٹ کے بیچ کے بڑے پٹھوں کی شمولیت، اس طرح سانس لینے سے تناؤ اور اضطراب کی کیفیت میں کمی لائی جا سکتی ہے جس کی سفارش برطانوی ہیلتھ سروسز سے وابستہ لوگ بھی کرتے ہیں۔
صحیح سانس لینے کے فوائد
ماہرین صحت کا  کہنا ہے کہ ’اگر ہم ڈایافرام میں اچھی طرح سانس لیں تو ہم جسم کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ ہم محفوظ ہیں۔‘

یہ خیال بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ ممکن ہے کہ کورونا وبا کے دوران سانس لینے کا نظام متاثر ہوا ہو کیونکہ یہ پھیپھڑوں پر حملہ کرتا ہے۔ فائل فوٹو: ان سپلیش

آہستہ اور گہری سانس لینے سے اعصابی نظام متحرک ہوتا ہے جبکہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ سانس کو قابو کرنے سے لعاب میں تناؤ کے ہارمون (کورٹیسول) کی سطح کم ہو جاتی ہے۔
ایک اور تحقیق کے مطابق سانس پر قابو پانے سے دماغی کیمسٹری میں ردوبدل ہو سکتا ہے، جو دماغی صحت کو برقرار رکھنے میں معاون ہوتا ہے۔ اسی طرح  دمہ کے مریضوں کو بھی سانس لینے میں آسانی ہو سکتی ہے۔
یہ خیال بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ ممکن ہے کہ کورونا وبا کے دوران سانس لینے کا نظام متاثر ہوا ہو کیونکہ یہ پھیپھڑوں پر حملہ کرتا ہے۔
ایک ایکسپرٹ کے مطابق کسی چھوٹے بچے کو سانس لیتے ہوئے دیکھیں، اس کا پیٹ ہر سانس کے ساتھ پھول جاتا ہے۔ وہ اتنا ہی آسانی سے کام کرتا ہے لیکن جب بچے سکول جانا شروع کرتے ہیں تو ان میں منفی تبدیلی آنا شروع ہوتی ہے، وہ دیر تک بیٹھے رہتے ہیں، کم حرکت کرتے ہیں اور جذباتی دباؤ کا بھی شکار ہوتے ہیں جس سے سانس کا عمل متاثر ہوتا ہے۔
ایک عام آدمی ایک دن میں 23،000 بار سانس لیتا ہے، تاہم ماہرین کے مطابق بہتر سانس لینے کی گنجائش پھر بھی موجود ہوتی ہے کیونکہ جدید دور کی ایجادات جو ہمیں بیٹھے رہنے پر مجبور کرتی ہیں وہ ہمارے سانس کے نظام میں رکاوٹ بن سکتی ہیں، جیسے کمپیوٹر یا موبائل فون پر سر جھکا کر رکھنا۔

یوگا میں بھی سانس لینے کے دیگر طریقے موجود ہیں۔ فوٹو: ان سپلیش

سانس کی مشق
سانس لینا ایک لاشعوری معاملہ ہے جو ہر لمحہ جاری رہتا ہے اور ہمیں یہ محسوس نہیں ہوتا کہ ہم اپنی سانسوں کا بیشتر حصہ کس طرح لیتے ہیں لیکن جسم میں یہ واحد نظام ہے جس میں ہمارے پاس تبدیلی کی صلاحیت موجود ہے۔
ایک ہاتھ پیٹ کے نچلے حصے پر اور دوسرا اوپری حصے پر رکھیں۔ کچھ سانسیں لیں اور دیکھیں کہ جسم کا کون سا حصہ سب سے زیادہ بڑھتا ہے (اس بات کا تعین کرنے کے لیے کہ آیا آپ سینے کے اوپری حصے سے یا ڈایافرام کے ذریعے سانس لے رہے ہیں)۔

آہستہ اور گہری سانس لینے سے اعصابی نظام متحرک ہوتا ہے۔ فوٹو: ان سپلیش

ماہرین کا کہنا ہے کہ سانس ناک کے ذریعے لیں اور اسے روک لیں۔ پھر ایک سے چار تک گنیں، پھر چھوڑ دیں، پھر سانس کھینچ کر ایک سے چھ تک گنیں اور چھ ٹکڑوں میں خارج کریں اور ایسا دن میں کئی مرتبہ دوہرائیں۔
چلتے پھرتے سانس کی مشق کرنا ممکن ہے۔ چلتے ہوئے پانچ قدموں کے لیے سانس لیں اور اگلے پانچ قدموں کے لیے سانس چھوڑ دیں جبکہ سانس ہمیشہ ناک کے ذریعے لینے کو بھی یاد رکھیں۔
سونے سے پہلے سانس کی مشق کرنی چاہیے۔ ناک سے سانس لی جائے اور تین تک گنا جائے اور چار پر سانس روک لیں پھر اسے منہ سے باہر نکالیں۔ ماہرین اس عمل کو کم از کم دس بار دوہرانے کی سفارش کرتے ہیں۔

شیئر: