Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تحریک انصاف ن لیگ کے پراجیکٹ بند کر رہی ہے؟

مسلم لیگ ن کی سابق حکومت نے صوبہ بھر میں دو سو مقامات پر مکمل طور پر مفت وائی فائی کی سہولت دی تھی۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
پاکستان میں 2018 کے عام انتخابات کے بعد تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی۔ تبدیلی کے نعروں کی گونج میں آنے والی اس حکومت کے سامنے سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ کیا مسلم لیگ ن کے دور کے پراجیکٹس ایسے ہی چلیں گے یا وہ بھی ’تبدیل‘ کیے جائیں گے۔
جلد ہی نئی آنے والی حکومت نے ان پراجیکٹس کو جاری رکھنے کا اعلان کیا۔ لیکن ساتھ ہی ان پراجیکٹس پر تنقید کا عمل نہیں روکا چاہے وہ اورنج لائن ٹرین ہو یا صحت کے ’پرانے‘ کارڈ۔
کئی ایک پراجیکٹس پر بہرحال نئی مہر لگا دی گئی ان میں صحت انصاف کارڈ بھی ایک ہے۔ 

 

لیکن حال ہی میں پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کی حکومت سے منسوب ایسی خبریں مقامی میڈیا میں نشر کی گئیں ہیں کہ مفت انٹرنیٹ کی فراہمی کا منصوبہ بھی بند کردیا گیا ہے۔
یہ خبر دیکھتے ہی دیکھتے بین الاقوامی خاص طور پر انڈیا کے کئی اخباروں کی زینت بن گئی۔ ہندستان ٹائمز نے سرخی جمائی کہ ’عمران حکومت نے پاکستان کی مفت انٹرنیٹ کی سہولت ختم کر دی‘ اسی طرح اے این اٗئی اور دیگر اداروں نے بھی کچھ اسی انداز میں اس خبر کو لیا۔
اردو نیوز نے اس حوالے سے صوبہ پنجاب کے انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ سے رابطہ کیا تو ایک اعلی عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’یہ درست ہے کہ اس سال مفت وائی فائی فراہم کرنے کے بنیادی پراجیکٹ کے معاہدوں کی تجدید نہیں کی گئی۔ لیکن اس کا ہر گز مطلب نہیں کہ مفت وائی فائی نہیں مل رہا۔ پچھلے سال سے پچاس فیصد ایسے مقامات جن جہاں انٹرنیٹ کا استعمال زیادہ نہیں تھا ان جگہوں سے سروس ختم کی گئی جہاں استعمال زیادہ تھا وہاں اب بھی سروس چل رہی ہے۔ البتہ حکومت کے کاغذوں میں چونکہ پراجیکٹ کو ایکسٹینشن نہیں ملی تو سرکاری طور پر فائلوں میں یہ پراجیکٹ بند ہوا ہے البتہ سروسز جاری ہیں۔‘
انہوں نے بتایا ’حکومت اس پراجیکٹ کو اصل میں ایک اور طرح سے لانا چاہتی ہے۔ جس میں اس کے اخراجات کا بوجھ حکومت کے کندھوں سے ہٹا کر پبلک پرائیویٹ شراکت داری پر ڈالا جائے گا۔ ابھی حکومت اس پراجیکٹ پر سالانہ 19 کروڑ روپے سبسڈی دے رہی ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس سہولت کی قانونی اور معاشی شکل بدلی جا رہی ہے۔‘

تحریک انصاف کی صوبائی حکومت پر الزام ہے کہ اس نے سابقہ حکومت کے کئی منصوبوں کو ختم کیا (فوٹو: ٹوئٹر)

عہدے دار نے کہا کہ ’نئے ماڈل کے لئے پی ٹی سی ایل سے مذاکرات جاری ہیں اور کئی پرائیویٹ کمپنیاں بھی اسی حوالے سے آن بورڈ ہیں۔ حکومت چاہ رہی ہے کہ مفت وائی فائی کا خرچہ اس پراجیکٹ کے اندر سے ہی نکلے۔ اس کے لیے کئی طرح کے ماڈل زیر بحث ہیں۔ حکومت طالب علموں کو تو مفت انٹرنیٹ دینا چاہتی ہے لیکن عام لوگوں سے کچھ کچھ نہ کچھ معمولی رقم لے گی۔ تاہم حتمی ماڈل ابھی تک سامنے نہیں آیا۔ اس وقت تک پچاس فیص استعداد سے مفت وائی فائی کی سہولت جاری رہے گی۔‘
خیال رہے کہ مسلم لیگ ن کی سابق حکومت نے صوبہ بھر میں دو سو مقامات پر طاقتور راؤٹرز کی مدد سے مکمل طور پر مفت وائی فائی کی سہولت 2017 میں دی تھی۔ 
پنجاب حکومت کی ترجمان مسرت چیمہ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’مفت وائی فائی کی سہولت کو بند کرنے کی خبروں کو جس طریقے سے نشر کیا جا رہا ہے ایسا نہیں ہے۔ کورونا کی وجہ سے طالب علم یونیورسٹیوں میں پچھلے ایک سال میں بہت کم آئے ہیں۔ کورونا کا دور ہے لوگوں کو سماجی دوریاں رکھنے کی تجویز ہے ایسے میں حکومت کروڑوں روپے وائی فائی کی اس سہولت کو قائم رکھنے کے لیے خرچ کر رہی ہے۔ آپ انتظار کریں اس پراجیکٹ کو اب ہم ایک نئے سرے سے لے کر آئیں گے اور ضرورت مندوں کو مفت انٹرنیٹ ضرور ملے گا۔‘
دوسری طرف مسلم لیگ ن کے رہنما عطا اللہ تارڑ سمجھتے ہیں کہ حکومت کے بس کی بات ہی نہیں کہ وہ عوامی سہولت کے پراجیکٹس کو چلا سکے۔
’ہم تو اس بات پر حیران ہیں کہ انہوں نے دوسال معاملات کو کیسے چلا لیا۔ ایک طرف کہا جا رہا ہےکہ طلبا سکولوں میں نہیں ہیں اس لیے پراجیکٹ ختم کر دیا۔ دوسری طرف اسی مہینے سکول اور کالج کھولنے کا اعلان کر دیا ہے۔ تو ان کی کون سی بات کو درست سمجھا جائے؟‘

مسرت چیمہ نے ’مفت وائی فائی کی سہولت کو بند کرنے کی کو خبروں کو محض پروپیگینڈا قرار دیا ہے۔( فوٹو: ٹوئٹر) 

تحریک انصاف پر یہ بھی الزام عائد کیا جاتا ہے کہ انہوں نے خالص دودھ کی خودکار مشینوں کے تحت سہولت بازاروں میں فراہمی، لاہور کی پرانی عمارتوں کی بحالی جو سپریم کورٹ کے حکم سے کی جا رہی تھی سمیت ’زیور تعلیم‘ نامی پروگرام کو بھی بند کردیا ہے۔ اس پراجیکٹ میں ہزاروں مستحق طلبا کو وظائف دیے جاتے تھے۔ 
تاہم مسرت چیمہ نے ان خبروں کو محض پروپیگینڈا قرار دیا ہے۔
’میں پہلے ہی بتا چکی ہوں ہم نے عوامی مفاد کا کوئی پراجیکٹ بند نہیں کیا ہاں البتہ کئی پراجیکٹس کی ری ماڈلنگ کی جارہی ہے۔ ہماری حکومت سمجھتی ہے کہ منصوبے اچھے تھے لیکن ان کو جس طریقے سے کیا جا رہا تھا اس پر ضرور ہماری حکومت نے سوال اٹھائے ہیں۔ دس ارب سے زائد کے پراجیکٹ پر بالکل ویسے ہی کام جاری ہے جیسا پچھلی حکومت چھوڑ کر گئی تھی۔ یہ عوامی پیسہ ہے اور عوامی پراجیکٹ ہیں ان میں بس شفافیت لائی جارہی ہے۔‘

شیئر: