Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سوشل میڈیا صارفین کا سوال ’کیا معصوموں کو مارنا بھی پولیس کی ڈیوٹی ہے؟‘

سلطان نذیر کی ہلاکت کے خلاف ورثا نے تھانے کا گھیراؤ کر کے احتجاج کیا۔ (تصویر: سلطان نذیر فیس بک )
کراچی کے علاقے سائٹ اے کی حدود میں پرسوں رات ہونے والے پولیس مقابلے میں نوجوان سلطان نذیر کی ہلاکت کے خلاف ان کے ورثا نے تھانے کا گھیراؤ کر کے احتجاج کیا۔
سلطان ن نذیر کے خاندان کی مدعیت میں پولیس اہلکاروں کی خلاف قتل کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا کرلیا گیا ہے جس میں دہشت گردی کی دفعات بھی شامل ہیں۔

 

ہنزہ سے تعلق رکھنے والا نوجوان سلطان نذیر اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے کراچی میں مقیم تھے اور اخراجات پورے کرنے کے لیے صدر میں ایک دکان پر کام بھی کرتے تھے۔
متوفی کے اہل خانہ کے مطابق سلطان کو موٹر سائیکل چلانی نہیں آتی تھی۔ لہٰذا وہ آمد و رفت کے لیے آن لائن بائیک سروس پر انحصار کرتے تھے۔ جب یہ واقعہ پیش آیا تب بھی وہ ’بائیکیا‘ سے موٹر سائیکل منگوا کر ایک رشتے دار کے گھر جا رہے تھے۔ ابتداء میں پولیس کی جانب سے دعویٰ کیا جارہا تھا کہ سلطان سے مسروقہ موٹرسائیکل برآمد ہوئی ہے۔
اس حوالے سے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ پولیس تحقیقات میں بائیکا کا ریکارڈ بھی چیک کرسکتے ہیں، پولیس اس سلسلے میں متعدد  بار موقف تبدیل کرچکی ہے۔ واقعے کے روز بھی سلطان بائیکیا کی بکنک کروا کر رشتے دار کے گھر جارہا تھا، موٹر سائیکل کے رائیڈر نے اہل خانہ سے رابطہ کر کے واقعے کے متعلق آگاہ کیا۔
درالحکو مت اسلام آباد کے بعد شہر قائد میں بھی ایک جوان لڑکے کی ہلاکت کا معاملہ منظر عام پر آتے ہی سوشل میڈیا صارفین بھی متحرک دکھائی دیے، صارفین کی جانب سے پولیس کی غفلت پر اسے تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
مولانا طاہر القادری نے اس ساںحے کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان پر تنیقد کرتے ہوئے لکھا کہ ’اس نئے پاکستان میں جرم کرنے والے آزادنہ گھوم پھر رہے ہیں۔ ماڈل ٹاون کے متاثرین کو انصاف دینے کے بجائے قید رکھا گیا ہے اس قدر یکساں انصاف فراہم کرنے پر وزیر اعظم عمران خان داد کے مستحق ہیں۔‘

ماریہ کرن نے لکھا کہ ’کیا یہ بھی ان (پولیس) کی ڈیوٹی میں شامل ہے؟ کسی معصوم کو مارنا اتنا آسان کیسے ہو سکتا ہے۔؟‘

زہرہ نورین کا کہنا تھا کہ ’ہنزہ سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان کو بے دردی سے مار کر بعد میں اسے دشت گرد ثابت کرنا، کراچی پولیس ماضی میں بھی ایسے کئی معصوموں کو مار چکی ہے۔‘

ایس ایس پی کیماڑی فدا حسین نے واقعے کی علیحدہ تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے ایس پی بلدیہ کی سربراہی میں تحقیقاتی ٹیم بھی تشکیل دے دی ہے۔
البتہ متوفی کے اہل خانہ نے تحقیقاتی کمیٹی پرعدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ تحقیقاتی کمیٹی میں ان کے عمائدین کو بھی شامل کیا جائے۔

شیئر: