Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلیک آؤٹ: ’فالٹ معلوم نہیں ہو سکا، مکمل بحالی میں چند گھنٹے لگ سکتے ہیں‘

وزیر توانائی نے کہا کہ ان کی حکومت نے 49 ارب روپے ٹرانسمیشن سسٹم پر لگائے۔ فوٹو: وزارت توانائی ٹوئٹر
پاکستان کے وزیر توانائی عمر ایوب نے کہا ہے کہ فیصل آباد ریجن کے مختلف علاقوں میں بجلی بحالی کا عمل شروع ہے جبکہ ملتان ریجن کے بیشتر علاقوں کے گرد سٹیشنز کو بجلی کی فراہمی بحال ہو گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ دارالحکومت کوئٹہ کے علاوہ دیگر اضلاع کے گرڈ سٹیشنز کو بھی بجلی کی فراہمی مرحلہ وار شروع کر دی گئی ہے، جبکہ خیبرپختونخوا کے تقریباً 41 فیصد علاقوں کو بجلی فراہم کر دی گئی ہے۔
وزیر توانائی کا کہنا تھا کہ بجلی کی مکمل بحالی کا کام جاری ہے، آئندہ چند گھنٹوں میں صورتحال معمول پر آجائے گی۔
انہوں نے کہا کہ ہسپتالوں کے فیڈرز کو بجلی فراہم ہونا شروع ہو گئی ہے۔ 
اس سے قبل وفاقی وزیر عمر ایوب نے کہا تھا کہ بریک ڈاؤن کے بعد بڑے شہروں میں بجلی کی جزوی بحال کی جا چکی ہے تاہم خرابی کی وجوہات کا تعین تاحال نہیں کیا جا سکا اور ٹیمیں گدو کے علاقے میں موجود ہیں۔
وزیر توانائی نے کہا کہ جس وقت خرابی پیدا ہوئی دس ہزار 302 میگاواٹ چل رہے تھے جو سسٹم سے آؤٹ ہو گئے۔
عمر ایوب کی جانب سے بجلی بحالی کی صورتحال پر جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے تمام گرڈ سٹیشنز کو بجلی کی فراہمی شروع کر دی گئی ہے۔
لوڈ کے تناسب سےمرحلہ وار شہر کے تمام فیڈروں کو آہستہ آہستہ بجلی کی فراہمی شروع ہو گئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ صوبہ خیبرپختونخوا کے تقریباً 40 سے 41 فیصد علاقوں کے فیڈرز سے بجلی کی فراہمی بحال کردی گئی ہے، جبکہ صوبے کے بڑے 27 میں سے 23  ہسپتالوں کو بھی بجلی فراہم ہونا شروع ہو گئی ہے۔
پشاورکے بیشترعلاقوں میں  بجلی فراہم کر دی گئی ہے جبکہ گرد و نواح کے علاقوں میں بحالی کا کام جاری ہے۔
بیان کے مطابق ملتان، مظفر گڑھ، بہاولپور، رحیم یار خان، وہاڑی، ساہیوال، خانیوال اور بہاولنگر سرکلز کے 80 فیصد گرڈز کو بجلی کی فراہمی شروع کر دی گئی ہے۔
وفاقی وزیر توانائی نے مزید کہا کہ بجلی کی بحالی میں ہسپتالوں، صنعتوں اور شہروں کو ترجیح دی جا رہی ہے جبکہ زراعت سے متعلقہ فیڈرز کو بجلی کی فراہمی پرتیزی سے کام جاری ہے۔
اتوار کو اسلام آباد میں وزیر اطلاعات شبلی فراز کے ہمراہ پریس بریفنگ میں انہوں نے بتایا تھا کہ ’سنیچر کو گیارہ بج کر 41 منٹ پر گدو پاور پلانٹ میں خرابی پیدا ہوئی اور اس کے بعد سسٹم نے خود کو بند کرنا شرو کر دیا۔‘
پریس بریفنگ کے دوران انہوں نے کہا تھا کہ ’تربیلا کو دو بار سٹارٹ کیا۔ اسلام آباد، لاہور اور فیصل آباد کے آدھے شہر میں بجلی آ چکی ہے۔ مزید چند گھنٹے لگیں گے۔‘
وجوہات کیا ہیں؟
وزیر توانائی نے کہا کہ ’ٹیمیں رات سے گدو کے علاقے میں موجود ہیں۔ ابھی تک فالٹ نظر نہیں آیا۔ دھند کم ہوگی تو معلوم ہوگا۔‘
اس موقع پر وزیر اطلاعات شبلی فراز نے بتایا کہ اگر ترسیل کا نظام درست نہ ہو تو بجلی کی پیداوار سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا۔
انہوں نے ماضی کی حکومتوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’بدقسمتی سے جنریشن پلانٹس لگا دیے گئے مگر ترسیل کا نظام درست نہیں کیا گیا۔‘
’ترسیل کا نظام 25 ہزار تک بجلی اٹھا سکتا ہے ۔ ہماری حکومت نے آتے ہی ترسیل کے نظام پر توجہ دی۔‘
بریک ڈاؤن کا ذمہ دار کون؟
عمر ایوب نے بتایا کہ ’انکوائری کرائیں گے، یہ تکنیکی نوعیت کا کام ہے، انجینیئرز کریں گے۔ ذمہ داری کا جہاں تک تعلق ہے تو یہ سسٹم کا مسئلہ ہے، سسٹم کو بہتر کرنا ہوتا ہے۔‘
وزیر توانائی نے کہا کہ ان کی حکومت نے انچاس ارب روپے ٹرانسمیشن سسٹم پر لگائے۔ ’ن لیگ کی حکومت میں اٹھارہ ہزار میگاواٹ سے زیادہ بجلی سسٹم نہیں اٹھا سکتا۔ ہماری حکومت نے 24 ہزار میگاواٹ تک اپ گریڈ کیا ہے۔‘
عمر ایوب کے مطابق بریک ڈاؤن صرف پاکستان نے دنیا کے مخلتف ممالک میں ہوتا ہے۔ سابق حکومتوں کے دور میں اس طرح کے آٹھ واقعات ہوئے۔

شیئر: