Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

طلبہ کا احتجاج: لیکچر زوم پر تو امتحان روم میں کیوں؟

طلبہ کا موقف ہے کہ پڑھایا آن لائن ہے تو امتحان بھی ایسے ہی ہو (فوٹو: پکسابے)
پاکستان میں گزشتہ کئی روز سے یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ امتحانات کیمپس میں نہیں بلکہ آن لائن لیے جائیں۔
اس دوران یہ رپورٹس بھی سامنے آئیں کہ ملک کے مختلف حصوں میں موجود جامعات نے یہ مطالبہ مان لیا تاہم کچھ مقامات پر ایسا نہیں ہوا تو پہلے اسلام آباد اور پھر لاہور میں طلبہ کی جانب سے احتجاج کیا گیا۔ لاہور میں طلبہ احتجاج کے موقع پر یونیورسٹی انتظامیہ اور پولیس کے ساتھ طلبہ کے تصادم کے واقعات پیش آئے۔
احتجاجی طلبہ کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ اور پولیس نے ان پر تشدد کیا جب کہ انتظامیہ طلبہ کو پرتشدد احتجاج کا ذمہ دار قرار دے کر ان کے خلاف مقدمات درج کرا چکی ہے۔
آن لائن امتحانات کے مطالبے اور اس کے لیے احتجاج سڑکوں تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ سوشل میڈیا پر بھی اس کا تذکرہ دیگر موضوعات پر غالب رہا۔ ایک وقت میں ٹوئٹر کی ٹرینڈز لسٹ میں پانچ سے زائد ٹرینڈز اسی موضوع سے متعلق رہے۔
ان ٹرینڈز میں گفتگو کرنے والوں نے گزشتہ روز لاہور میں ایک نجی جامعہ کے باہر طلبہ کی جانب سے یونیورسٹی گیٹ جلانے کی ویڈیو اور تصاویر شیئر کیں تو ساتھ ہی یونیورسٹی انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے طلبہ کے خلاف طاقت استعمال کیے جانے کے مناظر بھی ٹائم لائنز پر نمایاں رہے۔
لاہور میں طلبہ احتجاج کے بعد پرتشدد واقعات، طلبہ کی گرفتاریوں اور اس معاملے میں نجی یونیورسٹی کی انتظامیہ پر تنقید کرنے والوں کا موقف تھا کہ صوبائی حکومت بھی طلبہ کے خلاف کریک ڈاؤن میں یونیورسٹی انتظامیہ کے ساتھ ہے۔

طلبہ احتجاج اور پھر تشدد کے معاملے پر گفتگو کرنے والے صارفین نے مقدمات کے اندراج کو ناانصافی قرار دیا تو پوچھا کہ جن پر تشدد ہوا اب مجرم بھی وہی، یہ کیسا انصاف ہے؟
 

یونیورسٹی آف سینٹرل پنجاب کے باہر طلبہ نے احتجاج کیا اور پولیس و انتظامیہ پر طاقت کے استعمال اور تشدد کا الزام لگایا تو بتایا کہ درجنوں طلبہ کے خلاف مقدمات درج کر کے 30 سے زائد کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔
 

اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی گئی ایک درخواست کا حوالہ بھی ٹائم لائنز کی زینت بنا جہاں ایک وکیل نے معاملے کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ جسٹس بابرستار نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کو ہدایت کی کہ معاملے کو حل کیا جائے۔
لاہور میں ہونے والے احتجاج میں ایک طالب علم کی ہلاکت کی اطلاع سوشل میڈیا پر شیئر ہوئی تو ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ کچھ عناصر نے طلبہ تحریک کو ہائی جیک کر کے تشدد کو ہوا دی ہے۔
 

احتجاج کیوں، قصور انتظامیہ کا یا ذمہ دار کون؟ کی بحث کے ساتھ ساتھ مختلف طلبہ و طالبات طریقہ امتحان میں تبدیلی سے متعلق اپنے مطالبے کی یدادہانی کراتے رہے۔
سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے آن لائن امتحانات کے مطالبے پر اصرار کرتے طلبہ کا موقف ہے کہ ’کلاس زوم پر تو امتحان روم میں کیوں؟‘۔
 

عالیہ نور نامی ہینڈل نے آن لائن امتحان ہی کیوں کے مطالبے کے پس پردہ وجہ کا ذکر کیا تو لکھا کہ ’اب تھوڑا سا ہمارے جی پی اے کا تو خیال کر لیں‘۔
 

بیشتر جامعات کی جانب سے آن لائن امتحان کا مطالبہ مان لینے، البتہ کچھ کیسز میں ایسا نہ ہو سکنے اور نوبت احتجاج و تشدد تک پہنچنے کا حل پیش کرنے والے صارفین گفتگو کا حصہ بنے تو تجویز دی کہ جامعات طلبہ و طالبات کو امتحان سے متعلق دونوں آپشن دے دیں۔

بیک وقت آن لائن اور کمرہ امتحان میں ایگزامز کے آپشن دینے کو موجودہ صورتحال کا حل سمجھنے والے سوشل میڈیا صارفین کا کہنا تھا کہ اس سے طلبہ کو فیصلہ کرنے کا موقع مل جائے گا اور وہ کیمپس میں امتحان دینے کے پابند بھی نہیں رہیں گے۔
ایک روز قبل وفاقی وزیرتعلیم شفقت محمود کی جانب سے بھی یہ بیان سامنے آ چکا ہے کہ اگر چہ جامعات امتحانات سے متعلق فیصلے میں آزاد ہیں تاہم وہ خواہشمند ہیں کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن اس معاملے کو یونیورسٹیوں کے ساتھ ڈسکس کر کے کوئی مناسب حل نکالے۔

شیئر: