Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسلام آباد: ہیلپ لائنز پر گھریلو جھگڑوں سے موبائل لوڈ کی فرمائش تک کے فون کالز

ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقات کے مطابق ہیلپ لائن پر کی جانے والی 95 فیصد کالز کا متعلقہ ادارے سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا (فوٹو: اے پی پی))
میرے موبائل میں 50 سے 55 کالز موصول ہوئیں۔ آپریٹر نے بات کرکے کال کرنی والی خاتون کا مدعا سننے کی کوشش کی لیکن وہ بضد تھیں کہ بات صرف ڈی سی سے ہی کروں گی۔ طویل اجلاس کے بعد جب صورت حال دیکھی تو فون کرکے مسئلہ جاننے کی کوشش کی تو خاتون نے بتایا کہ ان کو اپنے پڑوس سے بلی کے رونے کی آوازیں آتی ہیں۔ فوراً پہنچ کر اس بلی کو چپ کروا دیں۔‘
یہ کہنا ہے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد حمزہ شفقات کا جو اردو نیوز سے گفتگو کے دوران جعلی فون کالز اور سوشل میڈیا کے ذریعے انتظامیہ کو الٹے سیدھے مسائل حل کرنے کے لیے کی جانے والی ٹویٹس اور پوسٹوں کی نشاندہی کر رہے تھے۔
حمزہ شفقات نے کہا کہ ’خاتون کی شکایت پر ان سے کہا گیا کہ وہ اپنے پڑوسیوں کے دروازے پر دستک دیں اگر بلی ان کی ہے تو وہ اسے چپ کرانے کے لیے کچھ ضرور کریں گے۔ لیکن خاتون نے پڑوسیوں سے بات کرنے کے بجائے دباؤ ڈالا کہ ضلعی انتطامیہ ہی آکر بلی کو چپ کروائے۔ جب عملے کو بھیجا تو معلوم ہوا کہ ان کے ساتھ والے گھر کی چھت پر بلی کسی شکنجے میں اٹکی ہوئی تھی۔ جسے نکالا گیا۔‘
ڈپٹی کمشنر نے انکشاف کیا کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں سیف سٹی کے تحت ون فائیو، ڈی سی آفس کنٹرول روم، فائر بریگیڈ اور ریسکیو 1122 پر آنے والی کالز میں سے 95 فیصد کالز ایسی ہوتی ہیں جن کا متعلقہ ادارے سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔
’شہری اپنے ذاتی مسائل کے حل کے لیے بھی ان ہیلپ لائنز پر کال کرتے ہیں۔ بعض اوقات پہنچنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ شکایت کنندہ نے صرف ذاتی رنجش کے باعث شکایت کی تھی۔‘
ڈپٹی کمشنر دفتر کی جانب سے اردو نیوز کو فراہم کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق یکم جنوری 2020 سے 31 دسمبر 2020 کے دوران سیف سٹی کے تحت 15 پر موصول ہونے والی کالز کی کل تعداد 12 لاکھ 65 ہزار 166 تھی جن میں سے صرف 65 ہزار 344 کا تعلق پولیس سے تھا۔

اسلام آباد انتظامیہ کے مطابق شہری اپنے ذاتی مسائل کے حل کے لیے بھی ہیلپ لائنز پر کال کرتے ہیں (فوٹو: فری پک)

ان 65 ہزار 344 کالز میں سے 21 ہزار 225 کالز ایسی تھیں جو کسی مخصوص جرم جیسے قتل، ڈکیتی، چوری، اغوا یا کسی خطرے سے آگاہی کے لیے نہیں تھیں بلکہ معمولی واقعات سے متعلق تھیں جو جرائم کی کیٹگریز میں شمار بھی نہیں ہوتے۔
دوسرے نمبر آنے والی کالز کی تعداد 13 ہزار 184 ہے جن کے ذریعے اسلام آباد کے مختلف تھانوں کی حدود میں ہونے والے جرائم جن میں قتل، اغوا، ڈکیتی، چوری، کار چوری، لڑائی جھگڑے، زنا، جنسی زیادتی، گمشدگی، فائرنگ کے واقعات اور موبائل چھیننے سے واقعات کے بارے تھیں۔
ان کالز کے مطابق سب سے زیادہ جرائم تھانہ گولڑہ کے علاقے میں ہوئے جہاں سے 1217 کالز موصول ہوئیں، تھانہ کورال کے علاقے سے 1152 جبکہ تھانہ کھنہ کے علاقے سے 1088 کالز موصول ہوئیں۔ 
آٹھ ہزار 173 کالز وفاقی دارالحکومت کی شاہراہوں پر ٹریفک حادثات سے متعلق تھیں۔

اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کی جانب سے شکایت پر کاررائی کرنے کے بعد سوشل میڈیا پر صارفین کو آگاہ کیا جاتا ہے (فوٹو: ڈی سی ٹوئٹر)

حکام کے مطابق ان کے علاوہ مختلف جرائم کے لیے موصول ہوئے درست کالز کی تعداد محض چند ہزار ہے۔ ان کے علاوہ موصول ہونے والی کالز میں گھریلو جھگڑوں سے لے کر موبائل لوڈ کی فرمائش تک کے لیے کی جانے والی کالز کی تعداد لاکھوں میں ہے۔
ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کا کہنا ہے کہ ’سرکار کا فرض ہے کہ کسی بھی موصول ہونے والی شکایت پر جتنی جلدی ممکن ہو سکے ردعمل دے اور کارروائی کرے۔ اس کے لیے گاڑیاں، پٹرول، افرادی قوت اور وقت سبھی لگتا ہے لیکن جب بھی کوئی غیر ضروری کالز آتی ہے اور اس پر پہنچنے پر معلوم ہو کہ وہ محض مذاق، ذاتی مسئلہ یا غیر ذمہ داری کی وجہ سے کی گئی ہے تو اس سے ریاستی وسائل کا ضیاع ہوتا ہے۔‘
ان کے مطابق ’عموماً ٹوئٹر پر بھی حکام کو مینشن کر کے کسی مسئلے یا خلاف ورزی کی نشاندہی کی جاتی ہے یا پھر کسی کی مدد کو پہنچنے کا کہا جاتا ہے لیکن جب متعلقہ حکام کو وہاں بھیجا جاتا ہے تو صورت حال یکسر مختلف ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا صارفین کو بھی محتاط رویہ اختیار کرنا چاہیے۔‘

شیئر:

متعلقہ خبریں