Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کسانوں کی پہیہ جام ہڑتال ختم، ’مسئلے کا پرامن حل ڈھونڈا جائے‘

اقوام متحدہ کے مطابق ’انسانی حقوق کے دائرے میں رہتے ہوئے مسئلے کا پرامن حل ڈھونڈا جائے۔‘ (فوٹو: روئٹرز)
انڈیا کسانوں کی ملک بھر میں زرعی اصلاحات کے خلاف تین گھنٹے کے لیے پہیہ جام ’چکا جام‘ ہڑتال ختم ہو گئی ہے۔
انڈین وقت کے مطابق دوپہر 12سے تین بجے تک ہڑتال کی گئی اور شاہراہوں کو بند کیا گیا۔ 
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق دسیوں ہزاروں کسان دو ماہ سے نئی دہلی کی سرحد پر بیٹھے ہیں، انہوں نے سڑکیں بند کر رکھی ہیں اور نئے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
ہڑتال کے موقع پر دہلی میں انتہائی سخت سکیورٹی کے انتظامات کیے گئے۔ مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق 50 ہزار سے زیادہ سکیورٹی اہلکار تعینات کیے گئے۔
خبررساں ادارے اے این آئی کے مطابق انڈین کسان یونین کے رہنما راکیش ٹکیت نے کہا تھا کہ اترپردیش، اتراکھنڈ اور دہلی میں کوئی سڑک جام نہیں کیا جائے گا اس کے علاوہ پورے ملک میں سڑکیں بند کی جائيں گی۔ دہلی کے نواح میں چکا جام نہ کرنے کی وجہ انھوں نے یہ بتائی ہے کہ کبھی بھی ان لوگوں کو بات چیت کے لیے بلایا جا سکتا ہے۔
 ادھر اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے انڈین حکومت سے اپیل کی کہ وہ ’زیادہ سے زیادہ تحمل‘ کا مظاہرہ کرے۔
کسانوں کا ماننا ہے کہ یہ قوانین نجی کمپنیوں کو فائدہ پہنچائیں گے۔
کسانوں کا احتجاج مجموعی طور پر پر امن رہا ہے لیکن 26 جنوری کو ہونے والی ٹریکٹر ریلی میں پولیس اور کسانوں کے درمیان جھڑپ ہوئی۔

کسان اپنا احتجاج ریکارڈ کرنے کے لیے ہڑتال اور مظاہرے کر رہے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

اس کے بعد حکومت نے دہلی کے کئی علاقوں میں موبائل انٹرنیٹ سروس بند کر دی اور کسانوں کے دہلی میں دوبارہ داخلے کو روکنے کے لیے بڑی بڑی رکاوٹیں کھڑی کیں۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے دفتر نے جمعے کو ایک ٹویٹ پوسٹ کی جس میں لکھا تھا کہ ’پرامن احتجاج اور آزادی رائے کا آن لائن اور آف لائن تحفظ کیا جا نا چاہیے۔‘
’یہ بہت اہم ہے کہ انسانی حقوق کے دائرے میں رہتے ہوئے مسئلے کا پرامن حل ڈھونڈا جائے۔‘

بین الاقوامی حمایت

کسانوں کی تحریک کو بین الاقوامی سطح پر حمایت حاصل ہے۔ چند روز قبل بین الاقوامی پاپ سٹار ریحانہ نے کہا تھا کہ لوگ اس کے بارے میں بات کیوں نہیں کر رہے ہیں تو اس پر انڈیا نے سخت موقف کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ قوانین پارلیمان میں بحث و مباحثے کے بعد پاس ہوئے ہیں۔
انڈین نژاد امریکہ کی نائب صدر کملا ہیرس کی بھتیجی اور وکیل مینا ہیرس نے اپنے خلاف ہونے والے مظاہرے کی ایک تصویر شیئر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ان مظاہروں سے خاموش نہیں ہو سکیں گی۔ انھوں نے کہا کہ ’جمعرات کو میں نے انڈیا میں کسانوں کے حقوق کی حمایت میں آواز اٹھائی تھی اور دیکھیں اس کا رد عمل۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ وہ اس سے خوفزدہ نہیں ہوں گی اور نہ ہی خاموش بیٹھیں گی۔ انھوں نے متواتر کئی ٹویٹس کیے اور حالیہ ٹویٹ میں انھوں نے لکھا ’یہ صرف زرعی پالیسی کے لیے نہیں ہے۔ یہ بولنے والی مذہبی اقلیت پر ظلم وستم ہے۔ یہ پولیس کا تشدد ہے، پرتشدد قوم پرستی ہے اور مزدور کے حقوق پر حملہ ہے۔ یہ عالمی استبداد ہے۔ ہمیں یہ نہ بتائیں کہ یہ ہمارا کام نہیں ہے۔ یہ سب ہمارے مسائل ہیں۔‘
بہر حال ریحانہ کے ٹویٹ کے بعد بین الاقوامی سطح پر اس پر بات چل نکلی اور سنیچر کو ہالی وڈ کی معروف اداکارہ سوزین سرانڈن نے بھی انڈیا میں جاری کسانوں کی تحریک کی حمایت کی ہے۔
انھوں نے نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ شیئر کرتے ہوئے لکھا ’میں انڈیا میں جاری کسانوں کی تحریک کے ساتھ کھڑی ہوں۔ یہاں پڑھیے کہ وہ کون ہیں اور کیوں احتجاج کر رہے ہیں۔‘
دوسری جانب گذشتہ روز مہاراشٹر میں بر سراقتدار پارٹی شیوسینا کے ایوان بالا میں نامزد رکن سنجے راوت نے حکومت کے رویے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جو کسانوں کے حق میں بول رہا ہے اور حکومت پر تنقید کر رہا ہے اسے غدار کہا جا رہا ہے۔ ’کیا ملک میں صرف ارنب گوسوامی اور کنگنا رناوت ہی وطن پرست ہیں؟‘
 

شیئر: