Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سینیٹ انتخابات پر آرڈیننس قیاس آرائیوں کی بنیاد پر جاری کیا گیا، چیف جسٹس

وزیراعظم نے سینیٹ انتخابات شو آف ہینڈز کے ذریعے کرنے کا کہا تھا۔ فوٹو اے ایف پی
پاکستان کی سپریم کورٹ نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے کے لیے جاری ہونے والے صدارتی آرڈینینس پر جمعیت علمائے اسلام ف کی درخواست پر وفاق سے جواب طلب کر لیا ہے۔ 
دوران سماعت جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’ہم نے اپنے ملک میں اچھے سیاست دان بھی دیکھے ہیں۔ ہمیں سب سیاست دانوں کو ایک ترازو میں نہیں تولنا چاہیے۔ اکبر بگٹی اور غوث بخش بزنجو اپنے اصولوں پر ڈٹے رہنے والے سیاستدان تھے۔‘
اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’عدالت پیسے لے کر ووٹ بیچنے والوں کا راستہ بند کر دے۔‘ 
چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے پیر کے روز کیس کی سماعت کی۔
سوموار کے روز سماعت شروع ہوئی تو ماحول گزشتہ سماعتوں کی نسبت مختلف تھا۔ اس کی وجہ ریفرنس کی سماعت کے دوران حکومت کی جانب سے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس کا اجرا تھا۔ 
کئی دنوں سے پر سکون اپوزیشن جماعت کے وکیل اور دیگر فریقین خاصے متحرک دکھائی دے رہے تھے جیسے حکومت کی کوئی بڑی کمزوری ان کے ہاتھ لگ گئی ہو۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید نے دلائل کا آغاز کیا ہی تھا کہ وکیل جمیعت علماء اسلام پاکستان کامران مرتضیٰ نے عدالت کو بتایا کہ ’حکومت نے اوپن بیلٹ انتخابات کے لیے آرڈیننس جاری کردیا ہے۔ حکومت نے عدالتی کاروائی کا ذرا بھی احترام نہیں کیا۔ آج تک ایسی قانون سازی نہیں ہوئی۔‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’حکومت نے پتا نہیں کیسے الیکشن ترمیمی آرڈیننس جاری کر دیا ہے۔ حکومت کچھ بھی کر سکتی ہے حکومت کو کوئی نہیں روک سکتا۔ مفروضوں کی بنا پر آرڈینس جاری کیا گیا۔‘

صد مملکت نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے کے لیے آرڈیننس جاری کیا تھا۔ فوٹو اے ایف پی

 جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ’آرڈیننس تو عدالتی رائے سے مشروط ہے۔ آرڈیننس عدالت میں چیلنج نہیں ہوا۔‘ کامران مرتضیٰ نے جواب دیا کہ ’جمیعت علماء اسلام پاکستان نے الیکشن ترمیمی آرڈیننس چیلنج کر دیا ہے۔ صدارتی آرڈیننس میں حکومت نے پہلے سے ذہن بنا کر اسے عدالتی فیصلے سے مشروط کر لیا ہے۔ سپریم کورٹ صدارتی آرڈیننس جاری کرنے کے معاملے کا نوٹس لے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’ہم اس معاملے پر اٹارنی جنرل کو سن لیتے ہیں۔‘ جس کے بعد عدالت نے صدارتی آرڈینس کے خلاف جے یو آئی کی درخواست ابتدائی سماعت کے لیے منظور کر لی اور اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کر دیا۔ 
ریفرنس میں فریق سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ ’آرڈیننس جاری کر کے عجیب و غریب حالات پیدا کیے گئے۔ عدالت کی رائے اگر حکومت سے مختلف ہوتی ہے تو آرڈیننس کا کیا ہوگا۔ صدارتی آرڈیننس کے دوسرے حصے میں کہا گیا سیاسی جماعت یا ان کا نامزد کردہ شخص درخواست دے کر بیلٹ پیپرز دیکھ سکتا ہے۔ ہماری رائے ہے کہ سینیٹ انتخابات آئین کے تحت ہوتے ہیں۔‘ 
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ’عدالتی رائے حکومتی مؤقف سے مختلف ہوئی تو آرڈیننس ختم ہو جائے گا۔‘ 
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’حکومت نے صرف قیاس آرائیوں پر آرڈینس جاری کیا ہے۔ تاہم ہم حکومت کو آرڈیننس جاری کرنے سے روک تو نہیں سکتے۔ لیکن پھر بھی اس معاملے کو دیکھتے ہیں۔‘
اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ ’اوپن بیلٹ کے ذریعے سینیٹ انتخابات کا انعقاد ووٹ کی خرید و فروخت کو روکے گا۔ اوپن بیلٹ کے ذریعے انتخابات صاف اور شفاف ہوں گے۔‘
اس دوران چیف جسٹس نے سینیٹر رضا ربانی کو روسٹرم پر بلا لیا۔ اس موقع پر چیف جسٹس، اٹارنی جنرل اور رضا ربانی کے دوران دلچسپ مکالمہ ہوا۔

اوپوزیشن کے مطابق صدارتی آرڈیننس کے متن میں تضاد ہے۔ فوٹو اے ایف پی

چیف جسٹس نے  کہا کہ ’رضا ربانی صاحب اگر یہ وجہ ہے اوپن بیلٹ سے انتخابات کی تو آپ اس کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں؟ انتخابات صاف اور شفاف ہونے چاہیں۔ بد دیانت لوگوں کو منتخب نہیں ہونا چاہیے۔‘
رضا ربانی نے جواب دیا کہ ’کوئی بھی سیاسی جماعت شفافیت کے سوال پر اعتراض نہیں کر رہی۔ بنیادی سوال شفافیت کا نہیں ہے۔ کوئی بھی سیاسی جماعت سینیٹ میں بدعنوان لوگوں کی نمائندگی کی حامی نہیں۔‘ چیف جسٹس نے کہا کہ پھر جمعرات کے دن کیا ہوا وہاں تو مختلف مؤقف اختیار کیا گیا۔ رضا ربانی نے کہا کہ ’میں سیاسی معاملے کی طرف آتا ہوں۔‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ دو بڑی سیاسی جماعتیں صدارتی ریفرنس کی سماعت میں فریق نہیں ہیں۔ رضا ربانی نے کہا کہ ’میں یہاں تصحیح کرنا چاہتا ہوں۔ سندھ حکومت کے ذریعے پیپلز پارٹی یہاں فریق ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’نہ حکومت سیاسی جماعت کی طرف سے بات کر سکتی ہے نہ سیاسی جماعت حکومت کی طرف سے۔‘ رضا ربانی نے کہا کہ حکومت جماعت سے الگ نہیں ہے۔ 
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’یہ بڑی عجیب بات ہے ایڈووکیٹ جنرل سندھ پیپلز پارٹی کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ میں یہاں پی ٹی آئی کی طرف سے نہیں وفاق کی نمائندگی کر رہا ہوں۔‘ 
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’اگر عدالت کی رائے نہ آئی تو سینٹ الیکشن خفیہ رائے شماری سے ہی ہوگا۔ پریس کانفرنس میں کہا گیا عدلیہ پر حملہ کیا گیا ہے۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ ’میں آئین کے ڈھانچے کو سمجھنے کی کھوج میں ہوں۔ میں یہ تلاش کر ہا ہوں کہ آرٹیکل 226 کے تحت وزیراعظم اور وزراء سمیت دیگر انتخابات کا طریقہ کار خفیہ کیوں رکھا گیا ہے۔ ہم نے اپنے ملک میں اچھے سیاست دان بھی دیکھے ہیں۔ ہمیں سب سیاست دانوں کو ایک ترازو میں نہیں تولنا چاہیے۔

سینیٹ انتخابات رواں سال 11 فروری کے بعد متوقع ہیں۔ فوٹو اے ایف پی

جسٹس عمر عطاء بندیال نے مزید کہا کہ ’سپریم کورٹ نے ایک فیصلے میں کہا کہ پارٹی وفاداری نظریات سے ہوتی ہے۔ اس سارے عمل میں وقت درکار ہے۔ 1985 کے عام انتخابات کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ 1985 کے انتخابات غیر جماعتی بنیاد پر ہوئی، محمد خان جونیجو نے حکومت بنائی اور پیسے کا بے دریغ استعمال ہوا۔‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’میں نے پہلے بھی وضاحت کی تھی کہ آئین بنانے والوں میں ذولفقار علی بھٹو، ولی خان، مفتی محمود اور نوابزادہ نصراللہ جیسے لوگ شامل تھے۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے ان کی بات کو آگے بڑھایا اور کہا کہ اکبر خان بگٹی اور غوث بخش بزنجو بھی شامل تھے۔ اکبر بگٹی اور غوث بخش بزنجو اپنے اصولوں پر ڈٹے رہنے والے سیاستدان تھے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’سینٹ میچور افراد کا ایوان ہے۔ سینٹ میں اسمبلی کی طرح جھگڑے نہیں ہوتے تھے۔ س دن یہ آبزرویشن دی تھی اسی دن جھگڑا ہو گیا۔‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’باہر کی اسمبلیوں میں تو کرسیاں چل جاتی ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پاکستان میں شاید اسمبلی کی کرسیاں اس لیے فکس ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ’امریکی اسمبلی میں تو لوگوں نے گھس کر توڑ پھوڑ کی تھی۔ اس قسم کے واقعات پوری دنیا میں ہوتے ہیں۔‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’ سپریم کورٹ پیسے لیکر ووٹ دینے والوں کا راستہ ہمیشہ کے لیے بند کر دے۔‘
عدالت نے کیس کی مزید سماعت بدھ تک کے لیے ملتوی کر دی۔

شیئر: