Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

زرداری کی ’غلط مہر‘ اور شہریار آفریدی کو ’غلطی کا احساس‘

ووٹ ڈالنے میں غلطی کی وجہ سے آصف زرداری کا بیلٹ پیپر ضائع ہو گیا اور ان کی درخواست پر نیا بیلٹ پیپر جاری کیا گیا (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے ایوان بالا سینیٹ کے انتخاب کے سلسلے میں سب سے بڑا معرکہ پارلیمنٹ ہاؤس میں اسلام آباد میں ہوا۔ پولنگ اگرچہ روایتی انداز میں ہوئی لیکن پہلی بار پولنگ کے عمل پر اعتراضات بھی سامنے آتے رہے۔ 
پانچ بجے پولنگ کا وقت ختم ہونے لے بعد ووٹوں کی گنتی کا عمل جاری ہے۔
آصف زرداری اور شہریار آفریدی اپنے بیلٹ پیپر خراب کر بیٹھے۔ زرداری کو دوسری مرتبہ بیلٹ پیپر جاری کیا گیا جبکہ شہریار آفریدی نے بھی دوسری مرتبہ بیلٹ پیپر جاری کرنے کی درخواست دی۔ 
قومی اسمبلی ہال میں سپیکر ڈائس پر بنے دو پولنگ بوتھ ماضی میں اسی مقام پر ہونے والے انتخابات کے برعکس اس انداز میں رکھے گئے تھے کہ جہاں کوئی بھی پیچھے کھڑا فرد یا ایوان میں لگے ہوئے کیمرے سے بیلٹ پیپر پر مہر لگانے کے عمل کو دیکھا جا سکتا ہے۔ 
پولنگ کے عمل کا آغاز ہوا تو ہر تھوڑی دیر بعد الیکشن کمیشن کا عملہ پولنگ بوتھ کے اوپر لگی چھتری کے ساتھ لگائی گئی لائٹ درست کرنے پہنچ جاتا۔ اس پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے پولنگ ایجنٹس نے احتجاج بھی کیا اور ریٹرننگ آفیسر کی توجہ بھی مبذول کروائی۔ 
ن لیگ کے پولنگ ایجنٹ رکن قومی اسمبلی و پولنگ ایجنٹ علی گوہر نے پولنگ کے عمل پر اعتراض اٹھایا اور کہا کہ ’جہاں ووٹ کاسٹ کر رہے ہیں وہاں عملہ گڑبڑ کر رہا ہے مہر لگانے کی جگہ پر عملے کو عین مہر لگاتے ہوئے بھیجا جاتا ہے، لائٹ ٹھیک کرنے کے بہانے ووٹ کو چیک کیا جا رہا ہے، ہماری نظر میں پولنگ کا عمل مشکوک ہو گیا ہے۔‘

پولنگ کا وقت پانچ بجے تک ہے لیکن تین بجے تک پولنگ کا عمل مکمل ہو چکا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

جب سابق صدر آصف علی زرداری اپنا ووٹ کاسٹ کرنے گئے تو ان کا بیلٹ پیپرز ضائع ہو گیا۔ آصف زرداری پولنگ بوتھ میں گئے اور مہر لگانے کے دوران غلطی کر بیٹھے جس سے بیلٹ پیپر خراب ہوگیا۔ آصف زرداری نے ریٹرننگ افسر کو بیلٹ پیپر دوبارہ جاری کرنے کی گزارش کی جسے منظور کرتے ہوئے دوبارہ بیلٹ پیپرز جاری کیا گیا تو انھوں نے اپنا ووٹ کاسٹ کر دیا۔ 
پولنگ کے عمل کے دوران اراکین کی جانب سے ذاتی پین استعمال کرنے پر الیکشن کمیشن حکام نے اعتراض کیا۔ جس پر ریٹرننگ آفیسر کی جانب سے ذاتی پین استعمال کرنے سے منع کر دیا گیا۔ 

342 کے ایوان میں 341 ممبران قومی اسمبلی اس وقت ووٹر ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

اسی دوران چیئرمین کشمیر کمیٹی شہریار آفریدی ووٹ کاسٹ کرنے آئے تو انھوں نے اپنے بیلٹ پر دستخط کر دیے۔ کچھ دیر بعد انھیں احساس ہوا کہ وہ غلطی کر آئے ہیں جس کے بعد انھوں نے ریٹرننگ آفیسر کو درخواست دی کہ ’گذشتہ کچھ دنوں سے طبیعت ناسازی کی وجہ سے پارٹی اجلاسوں میں شرکت نہیں کر سکا۔ اس وجہ سے ووٹ کاسٹ کرنے کے طریقہ کار سے واقفیت نہیں تھی۔ عملے سے بھی پوچھا لیکن وہ مجھے سمجھانے میں ناکام رہا۔ اب مجھے احساس ہوا کہ میں غلطی سے دستخط کر بیٹھا ہوں اس لیے درخواست ہے کہ مجھے دوبارہ ووٹ ڈالنے کے لیے بیلٹ پیپر جاری کیا جائے۔‘ 

ن لیگ کے پولنگ ایجنٹ رکن قومی اسمبلی و پولنگ ایجنٹ علی گوہر نے پولنگ کے عمل پر اعتراض اٹھایا (فوٹو: اے ایف پی)

اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے جہاں پولنگ کے عملے کے حوالے سے متعدد بار شکایت کی گئی، وہیں پیپلز پارٹی کی شاہدہ رحمانی نے شکایت کی کہ ق لیگ کے چوہدری سالک نے ووٹ کی تصویر بنائی ہے۔ ان کی شکایت کے بعد شازیہ مری بھی ریٹرننگ آفیسر کے پاس احتجاج کرنے پہنچ گئیں۔ 
انھوں نے مطالبہ کیا کہ چوہدری سالک حسین کی تلاشی لی جائے جس پر چوہدری سالک کے حمایتیوں نے احتجاج کیا۔ شازیہ مری نے اس صورت حال پر بلاول بھٹو زرداری کو آگاہ کیا جس کے بعد وہ بھی ریٹرننگ افسر کے پاس پہنچ گئے۔ 
پولنگ کا وقت اگرچہ پانچ بجے تک تھا لیکن تین بجے تک پولنگ کا عمل تقریباً مکمل ہو چکا تھا اور 340 ارکان نے ووٹ کاسٹ کرلیا۔ 342 کے ایوان میں 341 ممبران قومی اسمبلی اس وقت ووٹر ہیں، جماعت اسلامی کے مولانا عبدالکبر چترالی تاحال ووٹ کاسٹ کرنے نہ آئے۔ 
الیکشن کمیشن کے عملے نے بتایا ہے کہ عملہ پانچ بجے تک ممبر قومی اسمبلی کا انتظار کرے گا۔ جس کے بعد گنتی کا عمل شروع ہوگا۔ 
سینیٹ انتخابات کے موقع پر شہباز شریف، آصف زرداری، بلاول بھٹو زرداری اور یوسف رضا گیلانی کے درمیان ہال میں ملاقات بھی ہوئی۔ اس دوران خواجہ آصف بھی پہنچے تو آصف زرداری نے ان سے خصوصی طور پر حال احوال پوچھا۔  

شیئر: