Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

برطانیہ: پولیس کو اختیارات دینے کے مجوزہ قانون کے خلاف مظاہرے

مقامی پولیس نے مظاہرین پر قابو پانے کے لیے قریبی شہروں کی فورس سے مدد طلب کی۔ فوٹو: روئٹرز
برطانیہ کے شہر برسٹول میں ہزاروں افراد کا پولیس کو مظاہروں سے نمٹنے کے لیے مزید اختیار دینے کے بِل کے خلاف احتجاج  پُرتشدد شکل اختیار کر گیا جس میں دو پولیس افسران زخمی ہوئے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق مجوزہ قانون کے خلاف ہزاروں افراد کورونا کے باعث عائد پابندیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے شہر کے مرکزی علاقے میں جمع ہوئے اور احتجاج کیا۔
مقامی فورس، ایون اینڈ سمرسٹ پولیس نے بتایا کہ مظاہرین ابتدائی طور پر پُرامن تھے لیکن بعد ازاں ایک چھوٹے گروہ مشتعل ہو کر تشدد پر اتر آیا۔
برطانوی وزیر داخلہ پریتی پٹیل نے ٹویٹ کیا ہے کہ برسٹول میں سامنے آنے والے مناظر ناقابل قبول ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اقلیت کی جانب سے تشدد اور بدامنی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ہمارے تحفظ کے لیے پولیس افسران نے خود تکلیف دہ حالات کا سامنا کیا۔‘
پریتی پٹیل نے مشتعل مظاہرین کے حملے میں زخمی ہونے والے پولیس افسران سے ہمدردی کا اظہار کیا۔
روئٹرز کے مطابق پُرتشدد مظاہرے کے دوران ایک پولیس وین کو آگ لگائی گئی جبکہ دو پولیس افسران کو زخمی ہونے پر ہسپتال منتقل کیا گیا جن میں سے ایک کا بازو ٹوٹ گیا تھا جبکہ دوسرے کی پسلیوں میں چوٹ آئی ہے۔
مقامی پولیس نے مظاہرین پر قابو پانے کے لیے قریبی شہروں کی فورس سے مدد طلب کی۔
ایون اینڈ سمرسٹ پولیس نے پُرتشدد مظاہرے کے بعد جاری بیان میں کہا ہے کہ وہ تمام افراد جو مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہوئے ان کی شناخت کر کے انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا۔
روئٹرز کے ایک فوٹو گرافر کے مطابق انہوں نے  بعض مظاہرین کو پولیس افسران کی جانب آگ کے گولے پھینکتے اور پولیس سٹیشن کی دیوار پھلانگتے دیکھا۔
بعض مظاہرین نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر ’کِل دا بِل‘ اور ’جمہوریت ڈکٹیٹرشپ بن گئی‘ کے نعرے درج تھے۔
حکومت کی جانب سے تجویز کردہ بِل کے پارلیمان سے منظور ہونے کے بعد پولیس کو سڑکوں پر مظاہروں سے نمٹنے کے لیے مزید اختیارات ملیں گے۔

شیئر: