Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وزیراعظم کو انڈیا کے ساتھ تجارت کی سمری کا علم تھا: فواد چوہدری 

وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ ’وزیراعظم عمران خان کو انڈیا سے چینی اور کپاس درآمد کرنے کی سمری کا بطور وزیر تجارت پتا تھا اور ان کو آگاہی تھی کہ اس پر ای سی سی فیصلہ کرنے والی ہے۔‘
جمعے کے روز اردو نیوز سے ایک خصوصی انٹرویو میں جب ان سے سوال پوچھا گیا کہ کیا بطور وزیر تجارت وزیراعظم کو پتا تھا کہ انڈیا سے چینی درآمد کرنے کی سمری جا رہی ہے؟ تو ان کا جواب تھا ’ظاہر ہے، ظاہر ہے۔‘ 
اس خصوصی گفتگو میں فواد چوہدری نے یہ اعتراف بھی کیا کہ ’وہ فوج کے قریب ہیں اور بطور ادارہ راولپنڈی سے ان کے برسوں پرانے تعلقات ہیں۔‘ 

 

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’پاکستان کے خلائی پروگرام کے لیے ضروری ہے کہ اس کے سول حصے کی نگرانی وفاقی وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کرے۔‘ 
فواد چوہدری نے مختلف امور پر بات کرتے ہوئے حکومت کی میڈیا مینجمنٹ پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ ’بہت ساری تنقید اس لیے ہوتی ہے کہ اطلاعات کی میڈیا تک بے پناہ رسائی کو صحیح انداز میں ’مینیج‘ نہیں کیا جاتا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’عمران خان اس وقت تک وزیراعظم رہیں گے جب تک ایوان میں ان کی اکثریت ہے اور عثمان بزدار اس وقت تک وزیر اعلٰی پنجاب رہیں گے جب تک وزیراعظم کو ان پر اعتماد ہے۔ لہٰذا اپوزیشن اپنی صفیں درست کرے۔‘  
انڈیا سے تجارت سے متعلق پیدا ہونے والے حالیہ تنازعے پر جب فواد چوہدری سے سوال کیا گیا کہ کیا وزیراعظم کو ای سی سی کو بھیجی گئی سمری اور اس پر کارروائی سے متعلق علم تھا تو ان کا کہنا تھا کہ ’بطور وزیر تجارت۔’ 
’ دیکھیں نا وزیراعظم بھی کئی ہیٹس پہنتے ہیں۔ جب انہیں تجارت کے وزیر ایک مشورہ دے رہے ہیں تو وہ تو بھیجیں گے نا ای سی سی کو، کہ آپ اپنا پوائنٹ آف ویو اس کے اوپر دیں۔‘

’عمران خان جب سمری پر دستخط کرتے ہیں تو وہ بطور وزیر کرتے ہیں، لیکن جب وہ کابینہ میں آتے ہیں تو وہ وزیراعظم کی ٹوپی پہنتے ہیں‘ (فوٹو: پی ایم آفس)

 فواد چوہدری نے کہا کہ ’ کابینہ میں جب ایک بات آتی ہے تو پھر مختلف نتیجہ سامنے آتا ہے۔ وزیراعظم تب وزارت عظمیٰ کا ہیٹ پہنتے ہیں۔ جب وہ سمری پر دستخط کرتے ہیں تو بطور وزیر کرتے ہیں، لیکن جب وہ کابینہ میں آتے ہیں تو وہ وزیراعظم کی ٹوپی پہنتے ہیں۔‘ 
’جب آپ کابینہ میں آتے ہیں تو وزارت داخلہ کا موقف آتا ہے (کسی بھی موضوع پر)، وزارت خارجہ کا موقف آتا ہے، باقی اداروں کے موقف بھی  آتے ہیں اور اس کے مطابق کہانی آگے بڑھتی ہے اور حکومت کا فیصلہ ہوتا ہے جب کابینہ کا فیصلہ ہوتا ہے، تو چونکہ کابینہ نے یہ منظوری کبھی دی ہی نہیں تھی۔ اس لیے کبھی یہ فیصلہ ہوا ہی نہیں تھا۔‘  
فواد چوہدری نے کہا کہ ’اس معاملے پر تنازع بننے کی بڑی وجہ مناسب انداز میں میڈیا کو ہینڈل نہ کرنا ہے۔ ’حکومت میں تو کچھ نہ ہوتا ہی رہتا ہے چوبیس گھنٹے، ظاہر ہے کچھ فیصلے ہوں گے، وہ تبدیل ہوں گے، ان پر نظر ثانی ہو گی، لیکن جب ہر چیز میڈیا میں چلی جاتی ہے تو اس سے پھر ایک تاثر جاتا ہے کہ پتا نہیں فیصلے بدل لیے گیے یا کیا ہوگیا۔ تو اس لیے اس کا زیادہ تعلق میڈیا مینجمنٹ سے ہے۔‘   

فواد چوہدری کہتے ہیں کہ ’انڈیا سے تجارت اقتصادی رابطہ کمیٹی کا فیصلہ تھا حکومت کا نہیں‘ (فوٹو: اے ایف پی)

’اس میں تو کوئی دو آرا نہیں ہیں کہ پاکستان اور انڈیا میں اگر تعلقات اچھے ہوں گے تو معیشت کو بڑا فائدہ پہنچ سکتا ہے، اور اس خطے کو بڑا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔‘
وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک اقتصادی فیصلہ ہے اور ای سی سی نے جو اپنی رائے دی ہے وہ اپنا نقطہ نظر انہوں نے معیشت کی نظر سے دینا ہے۔ ای سی سی کا فیصلہ حکومت کا فیصلہ نہیں ہے۔ اور اس کو میڈیا نے حکومت کا فیصلہ بنا کر میڈیا میں پیش کر دیا۔‘ 
دوران گفتگو ان سے جب سوال کیا گیا کہ کیا ان کے بارے میں یہ تاثر درست ہے کہ وہ جی ایچ کیو کے آدمی ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہم جہلم اور چکوال والے تھوڑے بہت تو جی ایچ کیو کے ہوتے ہی ہیں۔‘ 
’ہمارا فوج سے ایک بہت پرانا تعلق ہے ادارے کے طور کے اوپر، اور لوگ ہیں (فوج میں)۔‘ 
تاہم اسی انٹرویو کے دوران فواد چوہدری نے کہا کہ ’پاکستان کے سپیس پروگرام کے آگے نہ بڑھنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اس پر سویلین کنٹرول نہیں ہے۔ ‘

فواد چوہدری کے مطابق ’پاکستان کے سپیس پروگرام کے آگے نہ بڑھنے کی ایک بڑی وجہ اس پر سویلین کنٹرول کا نہ ہونا ہے‘ (فوٹو: دفتر خارجہ)

’سپیس پروگرام کا ہمارا بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جو ہماری سپیشل کمانڈ اتھارٹی ہے یہ اس کے زیر نگرانی ہے سائنس و ٹیکنالوجی کی وزارت کے زیر نگرانی نہیں ہے۔ سو میری ایک بڑی بحث ہے کہ جو سپیس ٹیکنالوجی کا سول حصہ ہے وہ وزارت سائنس وٹیکنالوجی کی زیر نگرانی ہونا چاہیے۔‘ 
فواد چوہدری کہتے ہیں کہ ’1960 میں پاکستان ایشیا کا پہلا ملک تھا، یو ایس ایس آر کے بعد جس نے سپیس میں راکٹ بھیجا تھا۔ اس کے بعد 60 سال ہو گئے ہیں ہم نے کوئی ترقی نہیں کی۔ سپیس پروگرام کو سویلین کنٹرول میں دینا بہت اہم ہے۔ یہ جتنا جلدی ہم سمجھ جائیں اچھا ہوگا۔‘ 
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’عمران خان تبھی وزیراعظم نہیں رہیں گے جب ان کے پاس ایوان میں اکثریت نہیں ہو گی۔ یہ ایک سادہ سا اصول ہے، شاہد خاقان عباسی ہوں، احسن اقبال ہوں یا اور جن کی خواہشیں ہیں کہ ان کے لیے دن سال بنے ہوئے ہیں، ان کو الیکشن ہی لڑنا پڑے گا، اس طرح سے وزیر اعظم نہیں بن جائیں گے۔‘   
ان کا کہنا تھا کہ ’عثمان بزدار بھی اس وقت تک وزیر اعلیٰ پنجاب رہیں گے جب تک عمران خان کو ان پر اعتماد ہے۔‘

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ’عثمان بزدار اس وقت تک وزیر اعلیٰ پنجاب رہیں گے جب تک عمران خان کو ان پر اعتماد ہے‘ (فوٹو: پی ایم آفس)

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’پنجاب میں انتظامی صورت حال بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ مقامی حکومتوں کا نظام بہتر بنایا جائے اور گورننس ریفارمز کی جائیں۔‘ 
فواد چوہدری نے انکشاف کیا کہ ’وزیراعظم عمران خان کے جہانگیر ترین سے اب بھی ذاتی تعلقات ہیں اور ان کے درمیان رابطہ اور بات چیت ہوتی رہتی ہے۔‘ 
ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’وزارت سائنس و ٹیکنالوجی میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں لائی گئی ہیں اور اس کا بجٹ  18 ارب روپے سے بڑھا کر  142 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔‘ 

شیئر: