Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سینیٹ اجلاس، پیپلز پارٹی اور ن لیگ آمنے سامنے

اس سے قبل مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف کئی مخالفانہ بیانات بھی آچکے ہیں (فوٹو: مسلم لیگ ن)
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کے لیے حکومتی ارکان کے ووٹ لینے پر پیپلز پارٹی اور اے این پی کو شوکاز نوٹسز جاری کر دیے ہیں۔ 
دوسری جانب سینیٹ کے پہلے باضابطہ اجلاس میں اپوزیشن لیڈر کے لیے مسلم لیگ ن کے امیدوار اعظم نذیر تارڑ کی جانب سے سینیٹر دلاور خان گروپ کو ’تحفے‘ کہنے پر اس ارکان نے ایوان سے واک آؤٹ کر دیا۔ 
سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے معاملے پر پی ڈی میں تقسیم سینیٹ اجلاس سے پہلے ہی اس وقت واضح ہو گئی جب اپوزیشن کے مشترکہ اجلاس کے بجائے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے کمرے میں آزاد اپوزیشن کی جماعتوں کا مسلم لیگ ن کے سینیٹ میں پارلیمانی لیڈر اعظم نذیر تارڑ کی زیر صدارت اجلاس ہوا۔

 

اس اجلاس میں مسلم لیگ ن، جے یو آئی، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی اور بی این پی مینگل کے سینیٹرز شریک ہوئے۔ سینیٹ میں آزاد اپوزیشن کے اجلاس میں شاہد خاقان عباسی نے بھی شرکت کی۔ 
اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں پی ڈی ایم کے سیکرٹری جنرل شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ’صدر پی ڈی ایم کی منظوری سے پیپلز پارٹی اور اے این پی کو شو کاز نوٹسز جاری کردیے گئے ہیں۔‘
’نوٹسز واٹس ایپ کر دیے ہیں، اصل کاپی آج سینیٹ اجلاس کے دوران دے دی جائے گی۔ پیپلز پارٹی اور اے این پی کو جواب کے لیے 7 دن دیے گئے ہیں، جو جواب آئے گا اسے پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس آئندہ کی کارروائی پر فیصلہ کرے گا۔ نوٹس پر لکھا ہے کہ پی ڈی ایم اس نوٹس کو پبلک نہیں کرے گی۔ دونوں جماعتیں چاہیں تو ان نوٹسز کو پبلک کرسکتی ہیں۔'
آزاد اپوزیشن سینیٹرز کے اجلاس میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی بھی پہنچ گئے اور انہوں نے آزاد اپوزیشن کے سینیٹرز سے ملاقات کی۔
دوسری جانب جب سینیٹ کا پہلا باضابطہ اجلاس شروع ہوا تو قائد حزب اختلاف سید یوسف رضا گیلانی اور قائد ایوان وسیم شہزاد نے خطاب کیا۔ 

اعظم نذیر تارڑ کی جانب سے دلاور خان گروپ کو ’تحفے‘ کہنے پر اس کے ارکان نے ایوان سے واک آؤٹ کیا (فوٹو: سینیٹ)

آزاد سینیٹرز کے سربراہ اعظم نذیر تارڑ اور دیگر نے قائد حزب اختلاف کی تقرر پر سوال اٹھا دیے۔ اعظم نذیر تارڑ نے سینیٹ میں نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے کہا کہ’ ہمیں الگ اپوزیشن بینچز الاٹ کیے جائیں۔‘
 ’بارہ مارچ کو ایوان میں جو کچھ ہوا وہ سب کو پتا ہے۔ سینیٹ الیکشن میں خفیہ کیمروں کی تحقیقات کی جائیں۔ اپوزیشن لیڈر بنانے کے لیے پانچ تحفے بھجوائے گئے۔ اپوزیشن لیڈر کے معاملے پر ہمارا دل رنجیدہ ہوا۔ ہم 27 لوگ الگ اپوزیشن کے طور پر کردار ادا کرتے رہیں گے۔‘
اعظم تارڑ کے ریمارکس پر گیلانی کی حمایت کرنے والے دلاور خان گروپ نے اعظم نذیر تارڑ کی تقریر پر اعتراض کیا اور دلاور خان چار ارکان سمیت ایوان سے واک آوٹ کر گئے۔ 
اس سے قبل سینیٹ میں قائد حزب اختلاف سید یوسف رضا گیلانی نے اپنے پہلے خطاب میں کہا کہ ’جو سمجھتے ہیں کہ سینیٹ الیکشن آسان ہے ایسا نہیں ہے۔ ساری زندگی قومی اسمبلی کا الیکشن لڑتا رہا اس لیے اندازہ نہیں تھا۔‘

پی ڈی ایم نے حکومتی ارکان کے ووٹ لینے پر پیپلز پارٹی اور اے این پی کو شوکاز نوٹسز جاری کر دیے (فوٹو: مسلم لیگ ن)

 ’لوگ بہت مشکل سے سینیٹرز بن کر آتے ہیں، ذوالفقار علی بھٹو کو چھوٹے صوبوں کے احساس محرومی کا اندازہ تھا۔ اسی وجہ سے یہ ایوان بنایا گیا۔ اگر یہ احساس پہلے ہوتا تو سقوط ڈھاکہ نہ ہوتا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’جب میں وزیراعظم تھا تو خود کھڑا ہو کر سوالوں کے جواب دیتا تھا۔ اپوزیشن کو اپنے ساتھ لے کر چلوں گا۔ ہم حکومت کی بھی آواز بنیں گے کیونکہ یہ ہمارا ملک ہے۔ پی ڈی ایم بنی تو مہنگائی، بے روزگاری سمیت دیگر طبقات کی ہم آواز بنے۔‘
یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ ’یہ تاثر تھا کہ سینیٹ میں بزرگ زیادہ ہیں۔ یہاں آکر دیکھا تو نوجوان زیادہ ہیں۔‘ یوسف رضا گیلانی نے احمد فراز کے یہ اشعار بھی پڑھے۔
یوسف نہ تھے مـــگر سرِ بازار آ گئے
خوش فہمیاں یہ تھیں کہ خریدار آگئے
ھم کج ادا چراغ کہ جب بھی ہوا چلی
طاقوں کو چھوڑ کر سرِ دیوار آگئے
پھر اس طرح ہُوا مجھے مقتل میں چھوڑ کر
سب چارہ ساز جانبِ دربار آگئے

مسلم لیگ ن نے سینیٹ میں اپنی ہم خیال جماعتوں کے ارکان کا الگ اجلاس منعقد کیا (فوٹو: سینیٹ)

اَب دل میں حوصلہ نہ سکت بازوؤں میں ہے
اب کے مقابلے پہ میرے یار آگئے
آواز دے کے چُھپ گئی ہر بر بار زندگی
ہم ایسے سادہ دل تھے کہ ہر بار آ گئے
سورج کی روشنی پہ جنہیں ناز تھا فراز
وہ بھی تو زیرِ سایۂ دیوار آگئے
قائد ایوان سینیٹ شہزاد وسیم نے کہا کہ ’یہاں ایک اتحاد ہوا جو پی ڈی ایم کے نام سے جانا جاتا تھا۔ وزیراعظم کو کسی قسم کی گیدڑ بھبکی نہیں روک سکتی۔‘ انہوں نے کہا کہ ’اپوزیشن کو دعوت دیتا ہوں کہ آئیں اور انتخابی اصلاحات کریں۔ وزیراعظم نے اس حوالے سے سپیکر قومی اسمبلی کو خط لکھا ہے۔ جوڈیشل ریفارمز بھی کلیدی اہمیت کی حامل ہیں۔ یہ نہ ہو کہ فیصلہ پسند ہو تو مٹھائی ناپسند ہو تو عدالت خراب ہے۔‘

شیئر: