Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’گرین پراجیکٹس‘ کے بدلے قرضوں میں چھوٹ پر غور

ورلڈ بنک کا کہنا ہے کہ کورونا وبا نے ترقی پذیر ممالک کے لیے ماحولیاتی تبدیلیوں کا سامنا کرنا مشکل بنا دیا ہے۔ (فوٹو: روئٹرز)
عالمی مالیاتی اداروں آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کی رواں ہفتے ہونے والی موسم بہار کی میٹنگز میں غریب ممالک کے قرضوں کو ماحول دوست ’سبز‘ سرمایہ کاری کے بدلے معاف کرنے کے منصوبے پر سنجیدگی سے غور کیا گیا ہے۔
فرانسیسی خبر ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اس موسم خزاں میں ہونے والے عالمی موسمیاتی سمٹ میں ٹھوس تجاویز کی توقع کی جا رہی ہے۔
غریب ممالک کو دوہرے بحران کا سامنا ہے۔ ان پر اپنے قرضوں کی ادائیگی کا دباؤ ہے جبکہ ساتھ ہی وہ ماحولیاتی مسائل سے بھی نبرد آزما ہیں۔
اس حوالے سے آئی ایم ایف کی مینیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالین جارجیوا کا کہنا ہے کہ ’یہ انہیں بہت زیادہ کمزور کرتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اس طرح دنیا کو نام نہاد سبز قرضوں کے تبادلے کا خیال سمجھ آتا ہے۔‘
ورلڈ بنک کی ترجمان نے بھی اسی نکتے پر زور دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’کورونا وائرس کے بحران نے ترقی پذیر ممالک کے لیے موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی تباہیوں کے بڑھتے ہوئے خطرات کا سامنا کرنا نہائیت مشکل بنا دیا ہے۔‘
پہلے ہی کم بجٹ کے ساتھ ان ممالک کو وبا کے شدید اثرات اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے ہنگامی مالی امداد کا استعمال کرنا پڑا ہے۔
ورلڈ بنک کی ترجمان کے مطابق ایک تکنیکی ورکنگ گروپ جس نے نہ صرف آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے نمائندوں کو بلکہ اقوام متحدہ اور او سی ای ڈی کے نمائندوں کو بھی اکھٹا کیا، اس ہفتے شروع کیا گیا تھا۔ تاکہ اس طرح کے چیلنجوں سے نبرد آزما ممالک کی مدد کے تخلیقی مواقعوں کو جائزہ لیا جا سکے۔
اگرچہ ابھی ٹھوس اقدامات کے لیے کسی خاص وقت کا اعلان نہیں کیا گیا لیکن اس میں شامل تمام فریق واضح طور پر سکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں ہونے والے سی او پی 26 موسمیاتی سمٹ کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔
اس حوالے سے پیرس کی ایک عالمی سرمایہ کاری کی کمپنی کے سی ای او چیریدو کا کہنا ہے کہ اگر سبز قرضوں کے تبادلے کے آپشن کی جانب جایا جاتا ہے تو اسے واضح طور پر اس عمل سے ’مشروط‘ کرنا ہو گا کہ قرض میں ریلیف سبز منصوبوں کے آغاز کا باعث بنے۔
آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کو متعدد جزیرے پر مبنی ممالک کی درمیانی آمدنی والی معیشتوں کی حالت زار پر بھی غور کرنا پڑے گا، جنھیں معاشی امداد تو کم ملتی ہے لیکن انہیں ماحولیاتی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
 

شیئر: