Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

رمضان میں گھر کی یاد، سعودی عرب میں غیر ملکی سفری پابندیاں ختم ہونے کے منتظر

سعودی عرب میں تارکین وطن اپنے گھر والوں سے ملنے سفری پابندیاں ختم ہونے کے انتظار میں ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
رمضان میں کئی خاندان ایسے ہیں جہاں اہلِ خانہ ایک دوسرے کے ساتھ افطار کی میز پر ساتھ بیٹھ کر کھانے کا انتظار کرتے ہیں، لیکن سعودی عرب میں کچھ غیر ملکی کارکن ایسے ہیں جو اپنے ان رشتہ داروں کے انتظار میں بیٹھے ہیں جو پروازوں کی معطلی کے باعث اپنے آبائی ممالک سے واپس نہیں جا سکے ہیں۔
سعودی عرب کی سول ایوی ایشن اتھارٹی نے ایک سرکلر میں کہا ہے کہ کورنا وائرس کی وجہ سے معطل کی گئی بین الاقوامی پروازیں 17 مئی سے بحال کر دی جائیں گی۔
عرب نیوز کے مطابق جدہ میں کام کرنے والے ایک انڈین تارکین وطن انور پاشا انصاری نے عرب نیوز کو بتایا کہ ان کی بیٹی ہیبا انور انڈیا میں ہیں اور واپس نہیں آ سکی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 'کسی بھی ماں باپ کو اس طرح کی تکلیف سے نہیں گزرنا چاہیے جو ان پر بیت رہی ہے۔'
پاشا انصاری نے بتایا کہ ان کی بیٹی نئی دہلی میں اپنے بیچلرز کا امتحان دینے گذشتہ سال جدہ سے گئی، اس امید پر کہ گھر والوں کے ساتھ عید منانے واپس آ جائے گی۔
پاشا انصاری کے مطابق 'لیکن شاید تقدیر کسی اور چیز کی تیاری کر رہی تھی۔'
انہوں نے کہا کہ سفری پابندیوں نے 'ہمارے جیسے والدین کی امید پر پانی بھیر دیا جن کے بچے انڈیا میں پھنسے ہوئے ہیں۔'
پاشا انصاری نے بتایا کہ انڈیا میں تمام طالبِ علموں کو ان کے ہاسٹل خالی کرنے اور اپنے لیے رہنے کا بندوبست خود کرنے کا کہا گیا تھا، جو سمندر پار کام کرنے والے والدین کے لیے ایک ڈراؤنا خواب تھا۔
تاہم سفری پابندیوں کے ختم ہونے کی کوئی امید نظر نہ آنے پر پاشا انصاری کی بیٹی نے متحدہ عرب امارات کے ذریعے سعودی عرب واپس پہنچنے کا ارادہ کیا جس کے لیے انھوں نے دبئی میں 14 دن گزارے ۔

سعودی سول ایوی ایشن کے مطابق کورنا وائرس کی وجہ سے معطل کی گئی بین الاقوامی پروازیں 17 مئی سے بحال کردی جائیں گی۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

پاشا انصاری نے بتایا کہ جب ان کی بیٹی جنوری میں دبئی پہنچیں تو وہ اس سے ملنے کے خیال پر بے حد خوش ہوئے۔
لیکن ابھی اس کا قرنطینہ ختم ہونے میں تین دن رہتے ہی تھے کہ دبئی سے سعودی عرب تک کے لیے عارضی طور پر سفری پابندی عائد کر دی گئی اور ان کی امیدیں ایک بار پھر ماند پڑ گئیں۔
'ہیبا نے کافی وقت تک امید کی کہ پروازیں بحال ہو جائیں گی اور سعودی عرب تک کی پروازوں کی بحالی کے لیے خبریں دیکھتی رہی۔ وہ ہم سے صرف کچھ گھنٹوں کی دوری پر تھی۔'
تاہم کوئی راستہ نظر نہ آنے پر ہیبا کو انڈیا واپس جانا پڑا اور اس نے بڑے دل کے ساتھ اپنے والدین کو کہا کہ 'پاپا، ممی، خیریت سے رہیں، یہ وقت بھی گزر جائے گا۔'
پاشا انصاری کی کہانی ان ہزاروں خاندانوں کی ہے جو کورونا وائرس کی وبا کے باعث اپنے بچوں سے دور رہنے پر مجبور ہیں۔
ٹیکنالوجی اور ویڈیو کال ایپس اس عرصے میں مدد تو کرتے ہیں لیکن کافی نہیں ہوتے۔
مملکت میں کام کرنے والے لبنانی تارکین وطن رفاعت اون نے عرب نیوز کو بتایا کہ، 'پروازوں کی معطلی نے کئی تارکین وطن خاندانوں پر اثر کیا ہے۔'

کئی تارکین وطن سعودی عرب میں اپنے بیوی اور بچوں کو چھور کر سفر پر نکلے تھے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

انہوں نے بتایا کہ ان کے ایک رشتہ دار کو ہنگامی بنیادوں پر بیروت جانا تھا لیکن اب وہ وہاں پھنس گئے ہیں جبکہ ان کی اہلیہ اور چار بچے جدہ میں اکیلے ہیں۔
رفاعت اون کا کہنا تھا کہ ان کے رشتہ دار تین ماہ سے زائد سے بیروت میں پھنسے ہوئے ہیں۔
'میں ان کی مدد کر رہا ہوں اور جو ہو سکے کر ریا ہوں۔ لیکن یہ تہوار کا موسم میرے لیے بھی بہت مشکل ہو رہا ہے۔'
انہوں نے امید ظاہر کی کہ پروازیں ایک بار پھر بحال ہوجائیں اور ان کے رشتہ دار اپنے گھر والوں کے پاس پہنچ جائیں۔
پاکستانی تارکین وطن سید فیض احمد نے کہا کہ ان کے دو رشتہ دار پاکستان گئے اور واپس نہیں آ سکتے۔
'ان میں سے ایک ریاض میں اپنے اہلِ خانہ کو چھوڑ کر اپنے بیمار والد کے لیے گئے تھا۔ لیکن وہ پھنس گئے۔ ان کی اہلیہ اور دو بچے یہاں بلکل اکیلے ہیں اور ان کی واپسی کا بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں، خاص طور پر رمضان میں۔'

شیئر: