Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹی ایل پی اور ہمارا مقصد ایک لیکن طریقہ کار مختلف ہے: وزیراعظم

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ٹی ایل پی اور ہمارا مقصد ایک ہے تاہم طریقہ کار میں فرق ہے۔
پیر کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے چند روز سے ملک میں جاری تحریک لبیک پاکستان کے احتجاج کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس سے نقصان صرف اپنے ملک کو پہنچ رہا ہے۔ ’اس احتجاج سے یورپی ممالک کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘
وزیر اعظم نے تحریک لبیک کے مرکزی مطالبے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’فرانس کے سفیر کو ملک سے نکالنے کا مطالبہ ہو رہا ہے لیکن اس سے بھی مسئلہ حل نہیں ہو گا۔‘

 

انہوں نے یورپ کے بارے میں کہا کہ وہ اس کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ بقول ان کے ’اگر فرانس کے سفیر کو نکال دیا جائے تو دوسرے ممالک آزادی اظہار رائے کے نام سے ایسی کوششیں شروع کر دیں گے۔‘
وزیراعظم نے  کہا کہ اس وقت ملک میں معاشی صورت حال بہتری کی جانب گامزن ہے،  روپے کی قدر بڑھ رہی ہے، برآمدات میں اضافہ ہو رہا ہے، لوگوں کو ملازمتیں مل رہی ہیں۔
عمران خان نے تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس کا سلسلہ جاری تھا مگر یہ لوگ اسلام آباد میں دھرنے کی تیاری کر رہے تھے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’ہم ایسا طریقہ کار چاہتے ہیں کہ آئندہ کسی کو بے حرمتی کی جرات نہ ہو۔‘ عمران خان نے 1990 میں سلمان رشدی کی توہین آمیز کا حوالہ دیتے ہوئے اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف پر تنقید کی اور کہا کہ انہوں نے کس بین الاقوامی فورم پر اس کو اٹھایا تھا؟
ان کا کہنا تھا کہ ’چاہتے ہیں اس کا سلسلہ مستقل طور پر رک جائے۔‘
انہوں نے کہا کہ اس وقت دنیا میں 50 کے قریب اسلامی ممالک ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ تمام مل کر لائحہ عمل بنائیں تو اس کا اثر ہو گا۔ وزیراعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ دنیا میں چھوٹی تعداد میں یہودی ہیں لیکن انہوں نے ہولوکاسٹ کے حوالے سے مل کر ایسا طریقہ کار بنا رکھا ہے کہ کوئی اس کے خلاف بات نہیں کر سکتا۔

وزیراعظم کے مطابق احتجاج میں چار پولیس اہلکار ہلاک اور آٹھ سو سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ (فوٹو: پنجاب پولیس)

عمران خان کے مطابق ’دنیا کو یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے کہ مسلمانوں کو مقدس ہستیوں کی توہین سے تکلیف پہنچتی ہے۔
وزیراعظم کے مطابق احتجاج میں چار پولیس اہلکار ہلاک اور آٹھ سو سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔
انہوں نے سوشل میڈیا پر پاکستان کے خلاف فیک اکاؤنٹس سے پراپیگنڈہ کیے جانے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انڈیا کے 380 گروپس واویلا کر رہے ہیں کہ پاکستان میں خانہ جنگی شروع ہو گئی ہے۔
انہوں نے مسلم لیگ ن اور جے یو آئی پر احتجاج کرنے والوں کے ساتھ ملنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ’میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ جب نواز شریف وزیراعظم تھے تو انہوں نے کتنی بار اس بارے میں بات کی۔‘
انہوں نے امر پر زور دیتے ہوئے کہا مسلمان ممالک کو مل کر مغرب سے توہین آمیز سرگرمیوں کے حوالے سے رابطہ کرنا چاہیے۔  انہوں نے 2019 اور 2020 کے یو این اجلاسوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’وہاں میں اسلاموفوبیا پر بات کی تھی۔‘
انہوں نے کہا کہ وہ اس کی ذمہ داری لیتے ہیں اور اس کی قیادت کریں گے۔ وزیراعظم نے علما سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ’ان کو ہماری مدد اور تائید کرنی چاہیے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ توڑ پھوڑ سے کسی مغربی ملک کو فرق نہیں پڑے گا ہم اپنا ہی نقصان کریں گے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ یہ وقت اپنے ہی ملک کو نقصان پہنچانے کا نہیں ہے بلکہ خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ ملک کی ڈائریکشن ٹھیک ہو گئی اور معیشت اٹھ رہی ہے۔

شیئر: