Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ومٹو مشروب کیوں مقبول، سعودی عرب کس طرح پہنچا؟

سعودی عرب کے علاوہ جی سی سی ممالک میں بھی پسند کیا جاتا ہے۔(فوٹو ٹوئٹر)
رمضان المبارک کے دوران عربوں کا پسندیدہ  مشروب میں سے ایک فیمتو (ومٹو) ہے۔ سعودی عرب سمیت تمام عرب ممالک کے باشندے رمضان میں یہ مشروب استعمال کرتے ہیں۔
یہاں ومٹو اس طرح پسند کیا جاتا ہے جیسے کہ روح افزا اور جام شیریں پاکستان میں مبقول ہیں۔
اخبار 24 کے مطابق مشرق وسطی  خصوصاً خلیج عرب کے ہر گھرانے میں رمضان المبارک کے دوران افطار دسترخوان پر فیمتو مشروب ضرور سجایا جاتا ہے۔
شروع میں اسے وم اور ٹونک کہا جاتا تھا بعد میں ان دونوں الفاظ کو جمع کرکے ومٹو کا نام دے دیا گیا۔
ومٹو مشروب میں چینی، پانی کے علاوہ کالی کشمش، توت کا رس، پھلوں کا رس، لیموں کا عرق، کرامیل کا رنگ شامل ہوتا ہے۔
2014 میں اس مشروب میں مختلف عناصر شامل کیے گئے۔ پوٹاشیم اور چینی کی جگہ ایک نئی قسم کی مٹھاس کا اضافہ کیا گیا۔
سعودی عرب کس طرح پہنچا؟ 
اخبار 24 کے مطابق 1924 میں یہ مشروب برطانیہ سے انڈیا پہنچا جو اس وقت برطانوی سلطنت کا حصہ ہوا کرتا تھا۔
العوجان کمپنی  نے 1928 میں اس کی ایجنسی حاصل کی- ایک انڈین کارکن نے اسے بحرین میں العوجان کمپنی کی شاخ میں متعارف کرا دیا تھا- ساتویں عشرے میں دمام میں اس کی فیکٹری کھولی گئی۔
العوجان کمپنی نے 1971 میں ومٹو میں سوڈا کا اضافہ کیا اور اسے سافٹ ڈرنک کے طور پر تیار کیا جانے لگا۔ سعودی عرب میں اب بھی یہ مشروب العوجان کمپنی ہی فروخت کر رہی ہے۔

 اکثر رمضان کے دوران افطار دسترخوان پر اسے پسند کرتے ہیں۔(فوٹو ٹوئٹر)

فیمتو (ومٹو) برطانیہ میں تیزی سے بڑی پیمانے پر پھیلنے والے سافٹ ڈرنکس میں سے ایک ہے جس نے بڑی تیزی سے تجارتی مارکے کی حیثیت حاصل کرلی۔
اب یہ برطانیہ اور آئرلینڈ کے علاوہ سعودی عرب، یمن، گھانا، گمبیا اور سینیگال میں تیار ہو رہا ہے۔
80 برس سے زیادہ عرصے سے سعودی عرب میں شہرت حاصل کر چکا ہے۔ اکثر مسلمان رمضان کے دوران افطار دسترخوان پر اسے پسند کرتے ہیں۔
العوجان کمپنی 2013 سے لے کر اب تک سالانہ کی بنیاد پر 20 ملین سے زیادہ بوتلیں تیار کر رہی ہے۔ سعودی عرب کے علاوہ جی سی سی ممالک میں بھی اسے پسند کیا جاتا ہے۔

شیئر: