Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’بشیر میمن کے الزامات جھوٹے‘، شہزاد اکبر، فروغ نسیم کا قانونی کارروائی کا اعلان

سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے فروغ نسیم اور شہزاد اکبر پر الزامات عائد کیے ہیں (فائل فوٹو: اے پی پی)
وفاقی کابینہ کے اراکین بیرسٹر فروغ نسیم اور شہزاد اکبر نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سابق سربراہ بشیر میمن کی جانب سے لگائے جانے والے ان الزامات کی سختی سے تردید کی ہے جن میں کہا گیا تھا کہ حکومت کی جانب سے جسٹس فائز عیسیٰ اور اپوزیشن رہنماؤں پر مقدمات قائم کرنے اور گرفتار کرنے  کے لیے ان پر دباؤ ڈالا گیا۔
وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کے مطابق ’انہوں نے بشیر میمن کے ساتھ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے متعلق کسی بھی معاملے پر بات نہیں کی۔‘
منگل کو اپنی ٹویٹ میں وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’اعظم خان، شہزاد اکبر اور بشیر میمن کبھی ایک ساتھ میں میرے دفتر نہیں آئے۔ اعظم خان صرف ایک بار قانونی اصلاحات پر بات کرنے میرے دفتر آئے۔‘

 

فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ ’وزیراعظم عمران خان، اعظم خان یا شہزاد اکبر نے کبھی مجھ سے یہ ذکر نہیں کیا کہ انہوں نے جسٹس عیسیٰ کے بارے میں بشیر میمن کے ساتھ کسی بھی قسم کی بات چیت کی ہے۔‘
دوسری جانب وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر نے سابق ڈی جی ایف آئی اے کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا اعلان کیا ہے۔  
انہوں نے کہا کہ ’بشیر میمن کو قاضی فائز کے معاملے پر وزیراعظم یا مجھ سے ملاقات کے لیے کبھی نہیں بلایا گیا، بشیر میمن اور وزیر قانون کے درمیان بھی کوئی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔‘
شہزاد اکبر نے واضح کیا کہ ’وفاقی کابینہ نے ایف آئی اے کو صرف بغاوت کا ایک مقدمہ بھیجا تھا، بشیر میمن کو کسی مخصوص فرد کے خلاف کوئی کیس شروع کرنے کے لیے نہیں کہا تھا۔‘
انہوں نے بشیر میمن کو ان کے الزامات پر قانونی نوٹس بھی بھیج دیا ہے۔
خیال رہے کہ منگل کو  نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں بشیر میمن نے الزام عائد کیا تھا کہ ’وزیراعظم عمران خان اور ان کے وزرا فروغ نسیم اور شہزاد اکبر نے ان پر جسٹس فائز عیسیٰ کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور عوامی نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف کارروائی شروع کرنے اور انہیں گرفتار کرنے کے لیے دباؤ ڈالا تھا۔‘
یاد رہے کہ سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کو موجودہ حکومت نے ان کے عہدے کی مدت ختم ہونے سے ایک ماہ قبل جبری رخصت پر بھیج دیا تھا جس کے بعد انہوں نے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

جسٹس قاضی فائز کے خلاف حکومت نے سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا تھا (فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ)

وفاقی حکومت نے ان کی پنشن روک دی جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے بشیر میمن کی پنشن بحال کرنے کا حکم جاری کیا تھا، تاہم وفاقی حکومت نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر رکھی ہے۔

بشیر میمن کے بیان کے بعد تبصرے

سابق ڈی جی ایف آئی اے کے الزامات کے بعد اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں نے اس حوالے سے بیانات دیے ہیں۔
مسلم لیگ ن کے صدر اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے ٹویٹ کی کہ 'مسلم لیگ ن کے خلاف مقدمات قائم کرنے اور ان کو جیلوں میں ڈالنے کے لیے نیب نیازی گٹھ جوڑ میدان میں ہے اور بشیر میمن کے انکشافات سے میری ان باتوں کو تقویت ملی ہے۔'
مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے بدھ کو عمران خان کی حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے عدلیہ پر زور دیا کہ ’وہ وزیراعظم کے بارے میں سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کے بیانات کا نوٹس لے۔‘
اسلام آباد میں  میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیرِاعظم کی صاحبزادی نے کہا کہ ’وزیرِاعظم کے آفس میں سپریم کورٹ کے موجودہ جج کے خلاف سازش تیار کی گئی۔‘
مریم نواز نے کہا کہ ’جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کٹہرے میں کھڑی تھیں، فائز عیسیٰ پر جھوٹا ریفرنس بنانے پر جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔‘
انہوں نے کہا کہ 'تاریخ میں کبھی وزیرِاعظم آفس کے اندر گھناؤنے جرائم کا ارتکاب نہیں ہوا، اداروں کے سربراہوں کو بلا کر کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف یہ مقدمہ کرو، رانا ثنااللّٰہ کے خلاف وہ مقدمہ کرو۔'

شیئر: