Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ترک شہریوں کی ’نقل مکانی‘، بیرونِ ملک پناہ کی درخواستوں میں 506 فیصد اضافہ

ماہرین کے مطابق لوگوں کی نقل مکانی کا بنیادی تعلق آزادی اظہار رائے اور منظم کریک ڈاؤن سے ہے (فوٹو: روئٹرز)
ترکی میں حال ہی میں دو ٹک ٹاک صارفین کو ترک نوجوانوں کے وبا کے دوران بیرون ملک جانے کے قابل نہ ہونے کے حوالے سے طنزیہ ویڈیو شیئر کرنے پر گرفتار کیا گیا ہے۔ اس واقعے نے اعلٰی صلاحیتوں کے حامل افراد اور نوجوانوں کے ملک چھوڑ کر جانے پر بحث کو بڑھا دیا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق دو 23 سالہ صارفین نے بظاہر ترک حکام کو مشتعل کر دیا اور ان پر اپنے طنزیہ کلپ میں ’ریاست کی خود مختاری کے نشان کی کھلم کھلا توہین‘ کا الزام لگایا گیا۔
حالیہ اعداد و شمار کے مطابق ترکی جہاں کچھ حکام کے لیے مزاح بھی ناقابل معافی عمل بن گیا ہے، شہریوں کی بڑی تعداد بیرون ملک جانے کو ترجیح دے رہی ہے۔
یورپی دفتر شماریات کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق ’سنہ 2019 سے ترکی سے یورپ پناہ کی درخواستوں میں 506 فیصد اضافہ ہوا ہے۔‘
ماہرین کے مطابق اتنے وسیع پیمانے پر لوگوں کی نقل مکانی کا بنیادی تعلق معاشی مشکلات اور آزادی اظہار رائے اور جمہوریت پر منظم کریک ڈاؤن سے ہے۔
یورپ میں محفوظ پناہ گاہ کی تلاش میں ترکوں کا پناہ، امیگریشن اور یورپی ممالک میں عارضی حفاظت کی درخواستوں میں پانچواں نمبر ہے جو رینکنگ میں شامیوں، وینزویلینز، افغانیوں اور عراقیوں کے بعد آتا ہے۔
انہی اعداد و شمار میں ترکی کے بعد صومالیہ، اریٹیریا، ایران اور پاکستان کا نمبر ہے۔
سنہ 2015 میں 2 ہزار 995 ترک شہریوں نے یورپی ممالک میں پناہ کی درخواست دی تھی لیکن سنہ 2020 میں یہ تعداد بڑھ کر 18 ہزار سے زائد ہو گئی۔
اس رحجان میں حالیہ برسوں میں ہی اضافہ ہوا ہے۔ پڑھے لکھے نوجوان یورپی ممالک خاص طور پر جرمنی میں نئی زندگیاں اور نئے مستقبل بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، جہاں زیادہ تر ترکوں نے تحفظ اور پناہ کی درخواستیں دی تھیں۔

شیئر: