Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ن لیگ کے صدر شہباز شریف اب کیا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟

شہباز شریف لندن میں اپنے بڑے بھائی سابق وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کریں گے۔ (فوٹو: روئٹرز)
ملک کے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف جیل سے باہر آ چکے ہیں صرف یہی نہیں بلکہ اب ان کو عدالت نے ملک سے باہر جانے کی اجازت بھی دے دی ہے۔ لیکن اب کی بار شہباز شریف کا جیل سے باہر نکلنا ایک عام خبر کے طور پر نہیں دیکھا جا رہا۔
2021 کے شروع ہوتے ہی پہلے حمزہ شہباز کی رہائی اور پھر شہباز شریف کی رہائی کی چہ مگوئیاں شروع ہو چکی تھیں۔ قدرے تاخیر سے لیکن سب کچھ ویسے ہی ہوتا گیا جس کی باز گشت پہلے ہی سنائی دے رہی تھی۔ 
شہباز شریف جیل سے نکلے تو ان کا اپنا انداز بھی قدرے بدلا بدلا سا لگا۔ رات گئے ٹوئٹر پر صارفین کے روزمرہ کے معمولات کا جواب دینا ہو یا کورونا سے نمٹنے کے گُر حکومت کو بتانا ہوں ان کی چال ڈھال میں بہرحال بدلاؤ ہر ایک نے محسوس کیا۔
کالم نگاروں نے اگلے سیٹ اپ کے زائچے تک لکھ ڈالے کہ مستقبل میں شہباز شریف کسی ’اہم‘ منصب پر بیٹھنے کے لیے موزوں ترین ہو چکے ہیں۔
ایاز امیر جو کہ مسلم لیگ ن کے رکن اسمبلی بھی رہے ہیں اور سیاسی تجزیہ نگاری بھی کرتے ہیں ان کا ماننا ہے ’اب خدوخال سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں، گرد بیٹھ رہی ہے۔ اور نظر آ رہا ہے کہ اگلے انتخابات جب بھی ہوں اس کے فوائد و ثمرات شہباز شریف ہی سمیٹیں گے۔ کیونکہ ان کے پاس ہنر ہے کہ کیسے بنا کے رکھنی ہے۔‘

ایاز امیر کہتے ہیں کہ ’بیانیہ یا نعرے تو نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کے ہی چلیں گے لیکن اقتدار کا ہما شاید ابھی ان سے دور ہے‘ (فوٹو: روئٹرز)

ایاز امیر سمجھتے ہیں کہ ’بیانیہ یا نعرے تو نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کے ہی چلیں گے لیکن اقتدار کا ہما شاید ابھی ان سے دور ہے۔ تو ایسے میں جو بھی عکاسی نظر آ رہی ہے۔ وہ کوئی انہونی نہیں اور اس کا سارا سرا موجودہ حکومت کی کارکردگی سے جڑا ہے۔‘
23 اپریل کو جب شہباز شریف جیل سے باہر آئے تو ان کی ملاقاتوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔ ن لیگ کے اندر انتظامی اکھاڑ پچھاڑ بھی ہوئی، ریسرچ ونگ اور پالیسی ساز کمیٹیاں تشکیل دے دی گئیں۔
لیکن پارٹی کے اندر کسی کو بھی حتمی طور پر صورت حال واضح نہیں لیکن یہ ضرور ہوا ہے کہ سب کام میں جتے ہوئے ہیں اور یہ باتیں شہباز شریف کے ایک قریبی ساتھی نے بتائی ہیں (بوجوہ جن کا نام نہیں لیا جا سکتا) کہ جیل سے نکلتے ساتھ ہی ’کام ‘ کے سے حوالے سب سے پہلے انہوں  نے صف بندی شروع کی ہے۔ 
ایسے میں دلچسپ صورت حال اس وقت پیدا ہوئی جب شہباز شریف نے ملک سے باہر جانے کے لیے اپنا نام بلیک لسٹ سے نکالنے کے لیے ہائیکورٹ سے رجوع کر لیا۔

نواز شریف اور مریم نواز کے برعکس شہباز شریف مفاہمتی سیاست کے قائل ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

لیکن اس سے بھی اہم بات یہ ہوئی کہ انہوں نے اسلام آباد میں چین کے سفیر اور برطانوی ہائی کمشنر سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔
چینی سفیر نے تو انہیں کمیونسٹ پارٹی کی صد سالہ تقریبات کے لیے چین میں مدعو بھی کر ڈالا لیکن مبصرین کے کان اس وقت کھڑے ہوئے جب انہوں نے اپوزیشن اتحاد کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سے ملاقات نہیں کی۔
تجزیہ نگار فہد حسین کہتے ہیں ’یہ بات تو طے ہے کہ شہباز شریف کی مفاہمتی سیاست ہی ان کی کامیابی کا راز ہے۔ اور پی ڈی ایم میں متحرک نہ ہونے کی ان کے پاس واضح وجہ ہے کہ یہ اتحاد وہ سب کچھ حاصل نہیں کر سکا جس کے لیے بنا تھا۔ تو شہباز شریف اس میں اپنا وقت ضائع کرنے کی بجائے مستقبل میں اپنے رول پر فوکس کریں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ جیسے آگے کچھ پہلے سے ہی تیار ہوا پڑا ہے۔ اور ہر چیز واضح ہو چکی ہے۔ لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ ان کے آگے روڑے نہیں اٹکائے جا رہے ہیں اور یہ صرف ان کی مفاہمت والی سوچ کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے سسٹم سے ریلیف اخذ کیا ہے باقی اور کچھ بھی کہنا بہت جلد بازی میں ہوگا ابھی بات اتنی سادہ نہیں ہے۔‘

رہائی کے بعد شہباز شریف نے پی ڈٰی ایم کے سربراہ سے ابھی تک ملاقات نہیں کی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

شہباز شریف جب لندن جائیں گے تو یقیناً وہ مستقبل کی سیاست کے خدوخال اپنے بڑے بھائی اور سابق وزیراعظم نواز شریف سے ایک طویل مشاورت کے بعد طے کریں گے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ نواز شریف ٹکراؤ کی سیاست کو جس نہج پر لے گئے ہیں اس سے ان کی واپسی جلد تو ممکن نہیں ایسے میں شہباز شریف کو خلیج کو پاٹنے کے لیے بہت کام کرنا ہوگا۔
ابھی صرف شروعات ہوئی ہے۔ دوسری طرف مریم نواز اپنا سیاسی قد کاٹھ بنا چکی ہیں اور نواز شریف نے بھی ایک طویل بیانیے کی جنگ شروع کر رکھی ہے لہذا شہباز شریف کے لیے زیادہ چیلنج یہی معاملات ہوں گے۔ 

شیئر: